’’چھے‘‘ (ہندی، صفت) کا املا عام طور پر ’’چھ‘‘ لکھا جاتا ہے۔
رشید حسن خان اپنی کتاب ’’اُردو املا‘‘ (مطبوعہ ’’زبیر بکس‘‘، سنہ اشاعت 2015ء) کے صفحہ نمبر 457پر ’’چھے‘‘ کے املا کے حوالے سے رقم کرتے ہیں: ’’چھے: اِس لفظ کا املا ایک زمانے میں ’’چھہ‘‘ تھا، مگر اِس کو اکثر لوگ ’’چھ‘‘ لکھا کرتے تھے اور یہ لکھاوٹ اب بھی دیکھنے میں آتی رہتی ہے؛ جب کہ ’’چھ‘‘ کوئی لفظ ہی نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ جب تک کوئی اور حرف شامل نہ کیا جائے، اُس وقت تک یہ کسی حرکت کو قبول کر ہی نہیں سکتا۔ جیسے: پوچھ ایک لفظ ہے، اِس کا جزوِ آخر ’’چھ‘‘ ہے، جزوِ لفظ کی حیثیت سے تو یہ آسکتا ہے، ایک لفظ کی حیثیت سے کیسے آسکتا ہے؟‘‘
رشید حسن خان مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر 458کے آخر ی پیراگراف میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی مرحوم کا حوالہ کچھ ان الفاظ میں دیتے ہیں: ’’پانچ کے بعد کے عدد کو لوگ عام طور پر ’’چھہ‘‘ مختفی ہ کے ساتھ لکھتے ہیں، حالاں کہ اِس لفظ کا فصیح تلفظ ’’چھے‘‘ ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ اس طرح لکھا جائے۔(ہِندستانی)‘‘
آگے رقم کرتے ہیں:’’مختصر یہ کہ اس لفظ کا املا ’’چھے‘‘ مانا جائے گا۔ اور ’’دونوں‘‘، ’’تینوں‘‘ کے ساتھ ’’چھیوں‘‘ لکھا جائے گا۔ اسی وجہ سے ’’چھیاسٹھ ‘‘ اور چھیتّر‘‘ دونوں میں ی لکھی جائے گی۔‘‘
’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ اور ’’نوراللغات‘‘ دونوں میں املا ’’چھ‘‘ درج ہے۔ البتہ صاحبِ نور یہ صراحت کی ہے: ’’دہلی میں تلفظ چھے ہے۔‘‘
’’علمی اُردو لغت (متوسط)‘‘ میں دونوں قسم کا املا (چھ/ چھے) درج ملتا ہے۔
اس حوالے سے ایک نامعلوم شاعر کا یہ شعر بھی کوٹ کرنے کے لایق ہے:
ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھے، سات
آٹھ، نو، دس تلک تو تھی اِک بات