’’جرات‘‘ (مونث) کا اُردو املا عام طور پر ’’جرأت‘‘ لکھا جاتا ہے۔
رشید حسن خان اپنی کتاب ’’اُردو املا‘‘ کے صفحہ نمبر 44 پر اس حوالہ سے لکھتے ہیں: ’’اُردو میں ’’تأمل‘‘ یا ’’جرأت‘‘ نہیں لکھنا چاہیے۔‘‘
مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر 43 پر دی گئی صراحت سے بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے، ملاحظہ ہو: ’’عربی میں الف کی متحرک صورت کو ہمزہ کہا جاتا ہے اور اسی لیے ’’تامّل‘‘ اور ’’متاثّر‘‘ جیسے لفظوں کو عربی میں ’’تأمل‘‘ اور ’’متأثر‘‘ لکھا گیا ہے۔ اُردو میں الف اور ہمزہ دو مستقل مگر ہم آواز حروف ہیں۔ اسلیے الف خواہ متحرک ہو خواہ ساکن، ہر صورت میں الف ہے اور اسی لیے اُردو میں ’’تأمل‘‘ یا ’’جرأت‘‘ نہیں لکھنا چاہیے۔ ایک آواز کے لیے ایک حرف؛ اس اصول کی بنا پر، ایک ہی آواز کے لیے، ہمزہ اور الف کو یک جا نہیں کیا جائے گا۔‘‘
فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات میں ’’جرات‘‘ کا عربی املا ’’جرأت‘‘ درج ہے۔
بیشتر شعرا نے اُردو کی بجائے ’’جرات‘‘ کا عربی املا استعمال کرکے شعر کہے ہیں۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق منظور ہاشمی کا ذیل میں دیا جانے والا شعر ملاحظہ ہو:
شوق جب جرأت اظہار سے ڈر جائے گا
لفظ خود اپنا گلا گھونٹ کے مر جائے گا