فرہنگِ آصفیہ کے مطابق ’’غَنِیمَت‘‘ (عربی، اسمِ مؤنث) کے معنی ’’لوٹ‘‘، ’’لوٹ کا مال‘‘، ’’وہ مال جو بلا محنت و مشقت ہاتھ آئے‘‘، ’’وہ مال جو دشمن کی لڑائی میں ہاتھ لگے‘‘ وغیرہ کے ہیں۔ قریب قریب یہی معنی نوراللغات میں بھی درج ہیں۔
اس حوالہ سے پروفیسر نذیر احمد تشنہ اپنی تالیف ’’نادراتِ اُردو‘‘ کے صفحہ نمبر 191 پر درج کرتے ہیں: ’’غنیمت: غنیم (دشمن) سے حاصل ہونے والا مال۔ دشمن کی فوج شکست کی صورت میں مال و اسباب میدانِ جنگ میں چھوڑ جاتی جسے فاتح سمیٹ لیتے۔ اسے مالِ غنیمت یعنی دشمن کا چھوڑا ہوا مال کہا جاتا۔‘‘
دوسری طرف مولوی سید احمد دہلوی کی تحقیق (جو فرہنگِ آصفیہ میں ’’غنیمت‘‘ کے ذیل میں درج ہے) کے مطابق: ’’غنیمت کی تحقیق یوں ہے کہ غنم زبانِ عربی میں بکری کو کہتے ہیں۔ چوں کہ عرب کی زمین بنجر اور غیر آباد تھی اور ایسی صورت میں ان کی پرورش صرف چوپایوں پر زیادہ منحصر تھی، کیوں کہ وہ جانتے تھے ہمارے ملک کے سوا دنیا میں اور ملک نہیں ہے۔ پس ان کی دولت یہی تھی۔ جس طرح ہندوستان میں دھن کا لفظ مویشی واسطے مستعمل ہے، اسی طرح وہاں اُونٹ، بکری وغیرہ کو کہتے ہیں۔‘‘
غنیمت کے ذیل میں فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات دونوں میں میرؔکا یہ خوب صورت شعر بھی درج ملتا ہے، ملاحظہ ہو:
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
غنیمت ہے جہاں میں دم ہمارا