’’مُچلکا‘‘ (ہندی، اسمِ مذکر) کا تلفظ عام طور پر ’’مَچلکا‘‘ ادا کیا جاتا ہے۔
تلفظ کی تفصیل میں جانے سے پہلے اس لفظ کے املا پر تھوڑی روشنی ڈالتے ہیں۔ فرہنگِ آصفیہ کے مطابق یہ ہندی کا لفظ ہے۔ اس لیے دُرست املا ’’مُچلکا‘‘ ہی ہے۔
پروفیسر نذیر احمد تشنہؔ بھی اپنی تالیف ’’نادراتِ اُردو‘‘ کے صفحہ نمبر 253 پر املا ’’مُچلکا‘‘ درج کرتے ہیں۔ اور ثبوت کے طور پر میر حسنؔ کا یہ شعر بھی درج کرتے ہیں:
مُچلکا دیا تھا نہ تو نے یہی
بھلا اس کا بدلہ نہ لوں تو سہی
دوسری طرف نوراللغات میں اِسے ترکی کا لفظ درج کرکے املا ’’مُچلکہ‘‘ رقم کیا گیا ہے۔ تفصیل میں جتنے اشعار درج ہیں، ان میں سے تقریباً آدھوں میں املا ’’مُچلکا‘‘ ہی درج ہے۔ نیز محاورات میں ’’مُچلکا لکھانا‘‘، ’’مُچلکا لکھوانا‘‘، ’’مُچلکا لینا‘‘ اور ’’مُچلکا نکلنا‘‘ کا املا ’’ہائے ہوز‘‘ (مُچلکہ) سے نہیں بلکہ ’’الف‘‘ (مُچلکا) سے درج ہے۔
اس طرح علمی اُردو لغت (متوسط) میں بھی املا ’’مُچلکہ‘‘ درج ہے اور اسے فارسی کا لفظ رقم کیا گیا ہے۔
’’مُچلکا‘‘ کے معنی ’’عہد نامہ‘‘، ’’اقرار نامہ‘‘، ’’کسی کام کے نہ کرنے کا تحریری عہد‘‘، ’’عہدنامۂ مجرماں‘‘، ’’قول‘‘، ’’قرار‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
فرہنگِ آصفیہ میں ’’مُچلکا‘‘ کی تفصیل میں حضرتِ بحرؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
افسوس ہم نے خطِ غلامی دیا اُسے
لِکھوالیا نہ اُس سے مُچلکا رقیب کا
اس طرح نوراللغات میں حضرتِ سحرؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
دکھلاتا ہوں فرقت میں کشش آہِ رسا کی
آتا ہے ابھی اُڑ کے کچہری سے مُچلکا