’’بُزِ اَخفش‘‘ (عربی، مذکر) کی اصطلاح دراصل ’’نافہم‘‘ یا ’’کھوکھلے دماغ والے شخص‘‘ کے لیے مستعمل ہے۔
فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات کے مطابق اس کے لفظی معنی ’’اَخفش کا بکرا‘‘ کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر ’’نافہم‘‘، ’’بے سمجھے بوجھے گردان ہلانے والا‘‘، ’’ہاں میں ہاں ملانے والا‘‘ اور ’’مطیع‘‘ کے معنوں میں اس اصطلاح کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔
اس حوالہ سے سب سے بہترین وضاحت نوراللغات میں درج ہے، ملاحظہ ہو: ’’کہتے ہیں اَخفش نے جو عربی کے علم صرف نحو میں استادِ کامل گزرا ہے، زمانۂ طالب علمی میں ایک بکرا پالا جس کو اپنے سبق کا مطلب سمجھایا کرتا تھا۔ جب تک بکرا گردن نہ ہلا دیتا یا بول نہ اُٹھتا، اَخفش برابر سمجھاتا رہتا۔ عرصے کے بعد بکرے کو ذبح کیا، تو دیکھا کہ دماغ خالی ہوگیا تھا اور بھیجا باقی نہیں تھا۔‘‘
نوراللغات ہی میں اس حوالہ سے حضرتِ انشا کا یہ شعر بھی درج ملتا ہے:
پڑی پھرتی تھی گھر گنجی سی اک لونڈی جو واعظ کی
بُزِ اَخفش بنائے اپنی صورت خاک ساری میں