لفظ ’’مُساوات‘‘ عام طور پر ’’مَساوات‘‘ بولا جاتا ہے۔
پروفیسر ایم نذیر احمد تشنہ نے اپنی تالیف ’’نادراتِ اُردو‘‘ کے صفحہ نمبر 257 پر اس کا تلفظ ’’مُساوات‘‘ رقم کیا ہے جب کہ اس کے معنی ’’باہم برابر کرنا‘‘، ’’مُساوی کرنا‘‘، ’’برابری‘‘، ’’ہم سری‘‘ وغیرہ درج کیے ہیں۔ نیز تفصیل میں سوداؔ کا یہ شعر بھی رقم کیا ہے، ملاحظہ ہو
جھڑکی تو مدتوں سے مُساوات ہوگئی
گالی سنی نہ تھی، سو وہ اِک بات ہوگئی
نوراللغات اور فرہنگِ آصفیہ کے مطابق بھی اس لفظ کا دُرست تلفظ ’’مُساوات‘‘ ہی ہے۔ معانی بھی بیشتر وہی ہیں جو پروفیسر ایم نذیر احمد تشنہ نے درج کیے ہیں۔ البتہ فرہنگِ آصفیہ میں ’’مُساوات‘‘ کے ذیل میں بہادر شاہ ظفرؔ کا یہ دلچسپ شعر حوالتاً درج ہے کہ
آئے یا آئے نہ تم، ہم بھی گئے یا نہ گئے
یہ مُساوت ہمیں ہے، وہ مُساوات تمہیں