مرکب لفظ ’’قَوسِ قُزح‘‘ کو عموماً ’’قَوسِ قَزح‘‘ پڑھا جاتا ہے۔
’’خرد نامۂ جلالپوری‘‘ از علی عباس جلالپوری کے صفحہ نمبر 149 پر اس کا تلفظ ’’قَوسِ قُزح‘‘ درج ہے۔
فرہنگِ آصفیہ کے مطابق’’قَوس‘‘ کے معنی ’’کمان‘‘ اور ’’قُزح‘‘ کے معنی ہیں: ’’ایک فرشتہ کا نام جو اَبر (بادل) کا موکل ہے۔ بقولِ صاحبِ برہان ایک شیطان کا نام، چنانچہ اسی وجہ سے قوسِ قزح کو کمانِ شیطان کہتے ہیں۔ بقولِ صاحبِ منتخب یہ لفظ قزح بمعنی راہِ زرد و سرخ و سبز سے ماخوذ ہے۔ چونکہ اس کا رنگ مختلف ہوتا ہے، اس وجہ سے یہ نام رکھا گیا۔‘‘
فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات دونوں کے مطابق اس کے معنی ’’دھنک‘‘ کے ہیں۔
نوراللغات میں ’’قوسِ قُزح‘‘ کی تفصیل میں قدرؔ کا یہ پیارا شعر بھی درج ہے:
ہمیشہ رہتی ہے رنگیں برنگِ قَوسِ قُزح
لہو برس گیا نکلی جہاں دمِ پیکار