اُردو نثر میں عموماً دارالسلطنت کے لیے لفظ ’’پایہ تخت‘‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات دونوں میں دُرست املا ’’پائے تخت‘‘ ہے اور اس کے معنی ’’تخت گاہ‘‘، ’’دارالسلطنت‘‘، ’’بادشاہ کے رہنے کی جگہ‘‘ اور ’’راجدھانی‘‘ کے ہیں۔
نوراللغات میں ’’پائے تخت‘‘ کے ذیل میں دی جانے والی تفصیل میں رشکؔ کا یہ شعر بھی درج ملتا ہے:
پائے تخت شہان حسن ہے دل
ایک ہوتا تو کہتے شاہ آباد
اس حوالہ سے ماجد صدیقی کی ایک غزل کا مطلع کچھ یوں ہے:
ذرّوں سے پہچان ہے ضو کی، ماہِ مبیں کوئی اور
ہم تم پائے تخت کے ہیں اور تخت نشیں کوئی اور