عام طور پر ’’پروا‘‘ کو لفظ ’’پناہ‘‘ کی طرح ہائے ہوز کے ساتھ ’’پرواہ‘‘ لکھا جاتا ہے۔
اس حوالہ سے رشید حسن خان اپنی کتاب ’’عبارت کیسے لکھیں‘‘ کے صفحہ نمبر 70 پر رقم کرتے ہیں: ’’پرانے زمانے میں اسے ’’پرواہ‘‘ بھی لکھا گیا ہے؛ مگر عام طور پر ’’پروا‘‘ اور ’’بے پروائی‘‘ بولتے اور لکھتے ہیں اور اسی طرح لکھنا چاہیے۔ پروا فارسی کا لفظ ہے اس کے آخر میں ’’ہ‘‘ نہیں۔‘‘
’’اُردو املا اور رسم الخط‘‘ از ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے صفحہ نمبر 59 پر درج ہے: ’’پروا کا املا ’’پرواہ‘‘ یکسر غلط ہے۔ ہمیشہ ’’پروا‘‘ لکھنا چاہیے۔‘‘
فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات دونوں میں مذکورہ لفظ کا املا ’’پروا‘‘ ہی درج ہے۔
فرہنگِ آصفیہ میں ثبوت کے طور پر کسی نامعلوم شاعر کا یہ خوب صورت شعر بھی درج ملتا ہے:
نہیں روزن جو قصرِ یار میں پروا نہیں ہم کو
نگاہِ شوق رخنہ کرتی ہے دیوارِ آہن میں
اس حوالہ سے جونؔ ایلیا کا ایک شعر بھی رقم کرنے لائق ہے، ملاحظہ ہو:
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم