وکی پیڈیا کے مطابق 25 اگست 2008ء کو احمد فراز وفات پاگئے۔
آپ 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ پاکستان میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ آپ نے اُردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں تعلیم کے دوران میں ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے۔ جب آپ کا پہلا شعری مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘ شائع ہوا، تو وہ بی اے میں تھے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علاحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کرلی۔ اسی ملازمت کے دوران میں ان کا دوسرا مجموعہ ’’دردِ آشوب‘‘ چھپا جس کو پاکستان رائٹرزگلڈ کی جانب سے ’’آدم جی ادبی ایوارڈ‘‘ عطا کیا گیا۔ یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ انہیں 1976ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا۔ بعد ازاں جنرل ضیا کے دور میں انہیں مجبوراً جلا وطنی اختیار کرنی پڑی ۔
آپ 1989ء سے 1990ء چیئرمین اکادمی پاکستان،1991ء سے 1993ء تک لوک ورثہ اور 1993ء سے 2006ء تک ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘ کے سربراہ رہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں آپ کو ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘ کی ملازمت سے فارغ کیا گیا۔ آپ نے 1966ء میں ’’آدم جی ادبی ایوارڈ‘‘ اور 1990ء میں ’’اباسین ایوارڈ‘‘ حاصل کیا۔ 1988ء میں آپ کو بھارت میں ’’فراق گورکھ پوری ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ اکیڈمی آف اُردو لٹریچر (کینڈا) نے بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ دیا، جب کہ بھارت میں انہیں 1992ء میں’’ٹاٹا ایوارڈ‘‘ ملا۔
آپ کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ جامعہ ملیہ (بھارت ) میں آپ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع ’’احمد فراز کی غزل‘‘ ہے۔ بہاولپور میں بھی ’’احمد فراز، فن اور شخصیت‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا۔ آپ کی شاعری کے انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگوسلاوی، روسی، جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں۔
احمد فراز جنہوں نے ایک زمانے میں فوج میں ملازمت کی کوشش کی تھی، اپنی شاعری کے زمانۂ عروج میں فوج میں آمرانہ روش اور اس کے سیاسی کردار کے خلاف شعر کہنے کے سبب کافی شہرت پائی۔ آپ نے ضیاالحق کے مارشل لا کے دور کے خلاف نظمیں لکھیں جنہیں بہت شہرت ملی۔ مشاعروں میں کلام پڑھنے پر آپ کو ملٹری حکومت نے حراست میں لیا جس کے بعد آپ کوخود ساختہ جلاوطنی بھی برداشت کرنا پڑی۔
سنہ 2004ء میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں آپ کو ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا لیکن دو برس بعد انہوں نے یہ تمغا سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا۔
احمد فراز نے کئی نظمیں لکھیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی غزلیات کو بھی بہت شہرت ملی۔