وکی پیڈیا کے مطابق ناصر جہاں (Syed Nasir Jahan) پاکستان کے معروف براڈ کاسٹر، نعت خواں اورسلام گزار 6 دسمبر 1990ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
پورا نام سید ناصر جہاں تھا۔ 1927ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بھی لکھنؤ ہی میں حاصل کی۔ 1950ء میں پاکستان آ گئے اور ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کی۔ پہلے پروڈیوسر، پھر پروگرام آرگنائزر اور پھر پروگرام مینیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ زیڈ اے بخاری کی سرپرستی میں صلاحیتوں کو مزید جلا ملی۔
سید ناصر جہان کی پرسوز آواز اگرچہ ان کے بچپن ہی سے ایامِِ محرم میں سوز خوانی اور نوحہ خوانی کی زینت بنی، تاہم میڈیا پر جب 1954ء میں سید آل رضا کی نظم ’’شامِ غریباں‘‘ کو خوب صورت لحن میں پیش کیا۔ یہ نظم بعد میں ’’سلامِ آخر‘‘کے نام سے معروف ہوئی، تو ملک گیر شہرت نصیب میں آئی۔ اگست 1956ء میں جب ’’مجلسِ شامِ غریباں‘‘ اور ’’سلامِ آخر‘‘ کے درمیان ’’چھنو لال دلگیر‘‘ کا لکھا ہوا مشہور نوحہ ’’گھبرائے گی زینب‘‘ پہلی مرتبہ پڑھا، تو اس کے بعد سے یہ نوحہ اور یہ سلام نہ صرف ریڈیو پاکستان بلکہ پاکستان ٹیلی وِژن کی ابتدا ہی سے ایامِ محرم میں ’’مجلسِ شامِ غریباں‘‘ کی نشریات کا لازمی جزو بن گیا۔
سید ناصر جہاں ایک اچھے نعت خواں بھی تھے۔ ان کی پڑھی ہوئی کئی نعتیں بے حد مقبول ہوئیں، جن میں امیر مینائی کی نعت ’’جب مدینے کا مسافر کوئی پاجاتا ہوں‘‘ سرفہرست ہے۔ ان کا گلوگیر آواز میں گایا گیا ایک کلام ’’کسی گھر کا یہ بھی چراغ تھا‘‘ پاکستانی فلم ’’زینت‘‘ میں بھی شامل کیا گیا۔
حکومتِ پاکستان نے 1981ء میں صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔