وکی پیڈیا کے مطابق شیخ محمد ابرہیم ذوق (Mohammad Ibrahim Zauq) معروف استاد شاعر 16 نومبر 1854ء کو دہلی میں انتقال کرگئے۔
22 اگست 1790ء کو ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے ہاں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ ذوقؔ تخلص کرتے تھے۔ دبستانِ دہلی میں ان کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا، جس کی وجہ سے ذوق بھی شعر کہنے لگے ۔ اس زمانے میں شاہ نصیرؔ دہلوی کا توتی بول رہا تھا۔ ذوقؔ بھی ان کے شاگرد ہو گئے ۔ دل لگا کر محنت کی جس کی وجہ سے شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعۂ معلی تک رسائی ہو گئی۔ خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفرؔ ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ’’ملک الشعرا خاقانی ہند‘‘ کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفرؔ کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔
ذوق کو عربی و فارسی کے علاوہ متعدد علوم ’’موسیقی‘‘، ’’نجوم‘‘، ’’طب‘‘، ’’تعبیرِ خواب‘‘ وغیرہ پر دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔
مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا:
کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے