وکی پیڈیا کے مطابق شیخ محمد ابراہیم ذوق (Mohammad Ibrahim Zauq) اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر 22 اگست 1790ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔
دبستانِ دہلی میں ذوقؔ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد ابراہیم نام اور ذوقؔ تخلص تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے بیٹے تھے۔ حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ سو ذوقؔ بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیرؔ دہلوی کا توتی بول رہا تھا۔ ذوقؔ بھی ان کے شاگرد ہوگئے۔ دل لگا کر محنت کی اورشاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلی تک رسائی ہو گئی۔ خود ولیِ عہد سلطنت بہادر شاہ ظفرؔ ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ’’ملک الشعراء خاقانی ہند‘‘ کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفرؔ کے استاد مقرر ہوئے ۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔
عربی و فارسی کے علاوہ متعدد علوم جیسے موسیقی، نجوم، طب، تعبیرِ خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔
16 نومبر 1854ء کو 65 سال کی عمر میں دہلی میں انتقال کرگئے۔
مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا:
کہتے آج ذوقؔ جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے