وکی پیڈیا کے مطابق اختر انصاری اکبر آبادی (Akhtar Ansari Akbar Abadi) اردو کے نامور شاعر، افسانہ نگار، نقاد اور ادبی جریدے ’’نئی قدریں‘‘ کے مدیر 15 اگست 1920ء کو آگرہ (اکبر آباد)، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
اصل نا م محمد اختر ایوب تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد پہلے کراچی اور پھر حیدرآباد(سندھ) میں سکونت اختیار کی۔ 1956ء میں حیدرآباد، سندھ سے ’’نئی قدریں‘‘ کے نام سے ادبی جریدہ جاری کیا۔ شعری مجموعوں میں ’’کیف و رنگ‘‘، ’’جام و رنگ‘‘، ’’جام نور‘‘، ’’دل رسوا‘‘، ’’غم فردا‘‘، ’’منظر جاں‘‘، ’’لب گفتار‘‘، ’’نالۂ پابندِ نے‘‘، ’’نئی راہ گذر‘‘، ’’نئی رہگذر نئی کہکشاں‘‘، ’’لسان العصر‘‘ اور ’’فردوسِ نغمہ‘‘ کے نام شامل ہیں، جب کہ افسانوی مجموعوں میں ’’ہوس کار‘‘ اور ’’زندگی کے رُخ‘‘،نثری کتب میں ’’مفکر مہران‘‘، ’’ادبی رابطے لسانی رشتے‘‘ (مضامین)، ’’ذکر ان کا باتیں ان کی‘‘ (تذکرہ)، ’’سبدِ چیں‘‘ (شعرا کا تعارف و انتخاب)، ’’نظریات‘‘ (تنقید)، ’’جمالِ آگہی‘‘ (تنقید)، ’’مضامین‘‘ (تنقید)، ’’نگارشات‘‘ (مضامین) اور ’’شاہ عبد اللطیف:حیات اور شاعری‘‘ شامل ہیں۔
18 اگست، 1985ء کو بہاولپور، پاکستان میں انتقال کرگئے۔ حیدرآباد، سندھ میں کنٹونمنٹ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
ان کا ایک شعر ضرب المثل کی شکل اختیار کرگیا ہے، ملاحظہ ہو
چُپ رہو تو پوچھتا ہے خیر ہے
لو خموشی بھی شکایت ہوگئی