وکی پیڈیا کے مطابق نامور اردو نقاد، محقق، شاعر، سابق پروفیسر اور چیئرمین شعبۂ اردو اور سابق رجسٹرار کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر اسلم فرخی 15جون 2016ء کو کراچی میں انتقال کرگئے ۔
23 اکتوبر 1923ء لکھنؤ برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔ان کا سابق وطن فتح گڑھ، ضلع فرخ آباد تھا۔ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو صدیوں سے علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ خاندان کے ہر شخص کو شعرو سخن سے لگاؤ رہا ہے ۔ دادا، والد، پھوپھی زاد بھائی اور یہاں تک کہ ان کی بہنیں بھی شعر کہا کرتی تھیں۔ اس کے بعد ان کا ننھیال بھی اشاعتی کاموں میں مشغول تھا۔ لہٰذا وہاں بھی ادبی ماحول تھا۔ ایسے ادبی ماحول کا اثر اسلم فرخی پر پڑنا فطری تھا یا یہ کہیے کہ ذوقِ سخن ان کو خاندانی ورثے میں ملا۔
ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کا شمار ملک کے ممتاز دانشوروں میں ہوتا تھا۔ براڈ کاسٹر کی حیثیت سے بھی بڑی خدمات انجام دیں۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے بہ حیثیت مسودہ نگار چھے سال منسلک رہے ہیں۔ ریڈیو کے لیے فیچر، ڈرامے اور تقریریں لکھیں، جو گذشتہ پچاس برس سے ملک میں مقبول ہیں۔ ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔غزلیں اور نظمیں بھی لکھیں، لیکن پھر بھی اپنے آپ کو شاعر نہیں کہتے ۔ کہتے تھے کہ نہ شاعری میری شناخت بنی، اور نہ تحقیق۔ میری پہچان خاکہ نگاری کے علاوہ وہ کام ہے جو میں نے حضرت سلطان المشائخ کے حوالے سے کیا ہے ۔
اصل حوالہ، جیسا کہ وہ کہتے ہیں، حضرت نظام الدین اولیا محبوبِ الٰہی ہیں جن کے بارے میں انہوں نے چھے کتابیں لکھیں۔ فرخی صاحب اولیائے کرام سے غیر معمولی عقیدت رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے چھوٹی چھوٹی کتابوں کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ اس کے علاوہبچوں کے لیے بھی لاتعداد کتابیں لکھیں۔ حکومت پاکستان نے خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔