وکی پیڈیا کے مطابق انجمنِ ترقیِ اُردو ہند کے صدر اور ممتاز شاعر آنند نرائن ملا 12 جون 1997ء کو دِلّی میں انتقال کرگئے۔
24 اکتوبر 1901ء کو لکھنؤ (متحدہ ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ کشمیری الاصل برہمن تھے ۔والد کا نام جسٹس جگت نرائن تھا۔ 1921ء میں کیننگ کالج لکھنؤ سے بے اے کیا۔ 1923ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد وکالت کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ 1954ء میں اِلہ آباد ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے ۔ 1968ء میں لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے ۔ اس کے بعد دو بار راجیہ سبھاکے رکن بنائے گئے ۔
آنند نرائن ملا کی زندگی اردو کی خدمت اورترویج و ترقی کے لیے کوشش اور محنت سے عبارت ہے ۔ اُردو کے مختلف بڑے اداروں میں اعلا عہدوں پر رہے ۔ انجمنِ ترقیِ اردو (ہند) کی صدارت (1969ء تا 1983ء) کے زمانے میں انجمن نے بہت ترقی کی۔ حکومتِ ہند کے ترقی اُردو بورڈ کے نائب صدر رہے ۔ اُتر پردیش اُردو اکادمی کے صدر کی حیثیت سے عرصے تک کام کیا۔ نظم اور غزل دونوں میں قابلِ قدر کارنامے انجام دیے اور نثر میں بھی بہت کچھ لکھا۔ پانچ مجموعہ کلام شائع ہوئے ۔ ’’جوئے شیر‘‘ (1949ء)، ’’کچھ ذرے کچھ تارے‘‘ (1959ء)، ’’میری حدیثِ عمرِ گریزاں‘‘ 1963ء، ’’سیاہی کی ایک بوند‘‘ (1973ء)، ’’کربِ آگہی‘‘ (1977ء)
1964ء میں ساہتیہ اکیڈمی انعام بھی ملا۔ چند طویل نظمیں بھی لکھیں۔ مثلاً ’’اندھیر نگری میں دیپ جلائیں‘‘اور ’’اور ایک دن انسان جاگے گا۔‘‘