وکی پیڈیا کے مطابق ممتاز ترقی پسند شاعروں میں شمار ہونے والے ڈاکٹر معین احسن جذبی 13 فروری 2005ء کو انتقال کرگئے۔
اترپردیش کے اعظم گڑھ ضلع میں 21 اگست 1912ء کو پیدا ہوئے۔ مالی بدحالی اور سوتیلی ماں کی بدسلوکی کی وجہ سے وہ بچپن سے اداس رہا کرتے تھے۔ نجی زندگی سے نظر ہٹاکر اُردو شاعری کے لیے اس کی مشہور شخصیتوں کے کام کا مطالعہ کیا۔ ابتدائی عمر سے اپنی شاعری لکھنے شروع کر دی۔ 17 سال کی عمر میں ایک دل کو چھو جانے والی نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا’’فطرت ایک مفلس کی نظر میں‘‘
1945ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اردو ڈپارٹمنٹ میں لیکچرر کے طور پر مقرر ہوئے۔ تدریسی پیشے کے لوازم کے تحت پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1956ء میں مولانا حالی کی زندگی پر تحقیقی مقالہ لکھا۔ ملازمت کے استحکام کے ساتھ ہی شاعری کے لیے بھی وقت نکلنے لگا۔
اُردو ترقی پسند مصنفین تحریک کے ساتھ خود کو منسلک کیا۔ شاعری ’’فروزاں‘‘’’سخنِ مختصر‘‘ اور ’’گداز شب‘‘کے عنوانات کے تحت چھپی۔ کلیات کو ساہتیہ اکادمی کی جانب سے بعد از مرگ شائع کیا گیا۔
دیگر ایوارڈ کے علاوہ حکومتِ بھارت نے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ ’’پدم بھوشن‘‘ سے نوازا۔
نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:
تھی حقیقت میں وہی منزلِ مقصد جذبیؔ
جس جگہ تجھ سے قدم آگے بڑھایا نہ گیا