وکی پیڈیا کے مطابق اُردو کے نام ور اور قاد الکلام شاعر سیماب اکبر آبادی 31 جنوری 1951ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
5جون 1880 ء کو اتر پردیش کے محلے نائی منڈی،کنکوگلی، املی والے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ والد محمد حسین صدیقی بھی شاعر اور حکیم امیرالدین اتتار اکبرآبادی کے شاگرد تھے اور ٹائمز آف انڈیا پریس میں ملازم تھے۔
1898ء میں ملازمت کے سلسلے میں کان پور گئے۔ وہیں فصیح الملک داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے۔ 1900ء میں سکینہ بیگم سے شادی ہوئی۔ 1921ء میں ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر آگرہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور ’’قصرِ ادب‘‘ کے نام سے ادبی ادارہ قائم کیا۔ ملازمت کے دوران ماہنامہ مرصع ، ماہنامہ پردہ نشین اور آگرہ اخبار کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
سیمابؔ کے تقریباً ڈھائی ہزار شاگرد تھے جن میں راز چاندپوری، ساغر نظامی، ضیا فتح آبادی، بسمل سیدی، الطاف مشہدی اور شفا گوالیوری کے نام قابلَ ذکر ہیں۔ ’’تاج الشعرا‘‘ ، ’’ناخدائے سخن‘‘ کے القاب پائے۔ داغ دہلوی کے داماد سائل دہلوی، سیمابؔ کو ’’جانشینِ داغ‘‘ کہا کرتے تھے۔
سیمابؔ کی لکھی گئی کتابوں کی تعداد 284ہے، جس میں 22 شعری مجموعے ہیں جن میں ’’وحی منظوم‘‘ بھی شامل ہے۔ وحی منظوم کی اشاعت کی کوشش 1949ء میں اُن کو پاکستان لے آئی جہاں کراچی شہر میں 1951ء میں انتقال کرگئے۔
وہ خود لیے بیٹھے تھے آغوشِ توجہ میں
بے ہوش ہی اچھا تھا ناحق مجھے ہوش آیا
بدل گئیں وہ نگاہیں یہ حادثہ تھا اخیر
پھر اسکے بعد کوئی انقلاب ہو نہ سکا
تو بھی ہو سکتا ہے جانِ رنگ و بو میری طرح
پہلے پیدا کر چمن میں آبرو میری طرح
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
صداءِ سور سے میں قبر میں نہ جاگوں گا
کسی سنی ہوئی آواز سے پکار مجھے
سیمابؔ کو شگفتہ نہ دیکھا تمام عمر
کمبخت جب ملا ہمیں غم آشنا ملا
نہ تھا وہ بھید کہ دنیا مجھے سمجھ سکتی
میں خود بھی اپنے سمجھنے میں کامیاب نہ تھا
میخانۂِ سخن کا گدائے قدیم ہوں
ہر رنگ کی شراب پیالے میں ہے مرے
دیکھتے کے دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاؤں گا
دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے