وکی پیڈیا کے مطابق 7 مئی 2016ء کو صحافی اور انسانی حقوق کا رُکن سید خرم ذکی رات کے اندھیرے میں نارتھ ناظم آباد کراچی میں گولیوں کا نشانہ بنائے گئے۔ وہ اپنے ایک ساتھی راؤ خالد کے ساتھ ایک ریستوران میں رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم حملہ آوروں نے ان پر فائر کھول دیا۔ دونوں شدید زخمی ہوئے ۔ ساتھ میں ایک راہگیر بھی گولیوں کا نشانہ بنا۔ تاہم خرم ذکی اسپتال پہنچنے تک دم توڑ گئے اور ملک میں تشدد، انتہا پسندی اور مذہبی منافقت کے خلاف ایک دلیر آواز خاموش ہو گئی۔
خرم 26 مارچ 1976ء کو پیدا ہوئے۔ کراچی میں تعلیم حاصل کی۔ 1998ء سے 2001ء تک نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز میں شرکت کی۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والا پاکستان کا یہ نامور اور بہادر صحافی صرف 40 برس تک ہی جی پایا۔قصور یہ تھا کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کو چیلنج کرنے کے لیے بے خوفی سے آواز بلند کی۔ خاص طور سے لال مسجد فیم مولانا عبدالعزیز کی فرقہ وارانہ نفرت پر مبنی تقریروں کا بھانڈا پھوڑنے اور ان کے خلاف مظاہرہ کرکے مذہبی منافرت کا مقدمہ درج کروانے پر شہرت حاصل ہوئی۔