وکی پیڈیا کے مطابق اردو زبان کے معروف مصنف اور ڈراما نگار امتیاز علی تاج 13 اکتوبر 1900ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔
ان کے والد مولوی سید ممتاز علی دیوبند ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے جو خود بھی ایک بلند پایہ مصنف اور مجلہ ’’حقوقِ نسواں‘‘ کے بانی مدیر تھے۔ تاج کی والدہ محمدی بیگم بھی مضمون نگار تھیں۔
تاج نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ سنٹرل ماڈل اسکول سے میٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کی سند حاصل کی۔ انہیں بچپن ہی سے علم و ادب اور ڈراما سے دلچسپی تھی۔ دراصل یہ ان کا خاندانی ورثہ تھا۔ ابھی تعلیم مکمل بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک ادبی رسالہ ’’کہکشاں‘‘ نکالنا شروع کر دیا۔ ڈراما نگاری کا شوق کالج میں پیدا ہوا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی ڈرامیٹک کلب کے سرگرم رکن تھے۔ ڈراما کے فن میں اتنی ترقی کی کہ 22 برس کی عمر میں ڈراما ’’انار کلی‘‘ لکھا جو اردو ڈراما کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد بچوں کے لیے کئی کتابیں لکھیں۔ انہوں نے کئی ڈرامے، سٹیج، فلم اور ریڈیو کے لیے تحریر کیے ۔ انہوں نے بہت سے انگریزی اور فرانسیسی زبان کے ڈراموں کا ترجمہ کیا، اور یہاں کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔ ’’قرطبہ کا قاضی‘‘ انگریز ڈراما نویس لارنس ہاؤس مین کے ڈرامے کا ترجمہ ہے اور ’’خوشی‘‘ پیٹرویبر فرانسیسی ڈراما نگار سے لیاگیا ہے۔
امتیاز علی تاج نے بچوں کے لیے ایک جاسوسی سیریز ’’انسپکٹر اشتیاق‘‘ شروع کی، ’’چچا چھکن‘‘ ان کی مِزاح نگاری کی عمدہ کتاب ہے ۔ اس کے علاوہ ’’محاصرۂ غرناطہ‘‘ (ناول) اور ’’ہیبت ناک‘‘ افسانے بھی مشہور ہوئے ۔ان کے دیگر کامیاب ڈراموں میں ’’آخری رات‘‘، ’’پرتھوی راج‘‘، ’’گونگی‘‘، ’’بازارِ حسن‘‘ اور ’’نکاحِ ثانی‘‘ بھی شامل ہیں۔
انہیں حکومتِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز اور ڈرامے کے صدارتی اعزاز سے نوازا۔
امتیاز علی تاج آخری عمر میں مجلسِ ترقیِ ادب لاہور سے وابستہ رہے۔ آپ کی زیرِ نگرانی مجلس نے بیسیوں کتابیں نہایت خوب صورت انداز میں شائع کیں۔ آپ نے متعدد اردو ڈراموں کو بھی ترتیب دیا۔
19 اپریل 1970ء کو رات کے وقت دو سنگ دل نقاب پوشوں نے ان کو قتل کر دیا۔