وکی پیڈیا کے مطابق اردو کے عظیم شاعر ن م راشد 9 اکتوبر 1975ء کو لندن میں انتقال کرگئے۔
ان کا اصل نام نذر محمد راشد تھا۔ 1910ء میں ضلع گوجرانوالا کے قصبے وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ ابتدا میں وہ علامہ مشرقی کی ’’خاکسار تحریک‘‘ سے بہت متاثر رہے، اور باقاعدہ وردی پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں لیے مارچ کیا کرتے تھے۔
اردو شاعری کو روایتی تنگنا سے نکال کر بین الاقوامی دھارے میں شامل کرنے کا سہرا ’’ن م راشد‘‘ اور ’’میرا جی‘‘ کے سر جاتا ہے۔ 1942ء میں ن م راشد کا پہلا مجموعہ ’’ماورا‘‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو آزاد نظم کا پہلا مجموعہ ہے، بلکہ یہ جدید شاعری کی پہلی کتاب بھی ہے۔ ماورا سے اردو شاعری میں انقلاب بپا ہو گیا،اور یہ انقلاب صرف صنفِ سخن یعنی آزاد نظم کی حد تک نہیں تھا۔ کیوں کہ تصدق حسین خالد پہلے ہی آزاد نظمیں لکھ چکے تھے، لیکن راشد نے اسلوب، موضوعات اور پیش کش کی سطح پر بھی اجتہاد کیا۔
راشد کے تین مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے تھے :’’ماورا‘‘، ’’ایران میں اجنبی‘‘ اور ’’لا =انسان۔‘‘ جب کہ ’’گمان کا ممکن‘‘ ان کی موت کے بعد شائع ہوئی تھی۔
راشد کی آخری رسوم کے وقت صرف دو افراد موجود تھے، ان انگریز بیگم شیلا اور ساقی فاروقی، جب کچھ لوگ عبداللہ حسین کا ذکر بھی کرتے ہیں۔
ساقی لکھتے ہیں کہ شیلا نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے راشد کے جسم کو نذرِ آتش کروا دیا اور اس سلسلے میں ان کے بیٹے شہریار سے بھی مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جو ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے بروقت آتش کدے تک پہنچ نہیں پائے۔
ان کی آخری رسوم کے متعلق یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ راشد چوں کہ آخری عمر میں صومعہ و مسجد کی قیود سے دور نکل چکے تھے، اس باعث انہوں نے اپنے لواحقین کو اپنی آبائی ریت پر چتا جلانے کی وصیت خود کی تھی۔