معلوماتِ عامہ کے حوالہ سے مشہور انگریزی ویب سائٹ "timeanddat.com” کے مطابق مشہور آسٹریائی ماہر نفسیات و ماہر تحلیل نفسی ’’سگمنڈ فرائڈ‘‘ 23 ستمبر 1939 ء کو لندن میں انتقال کرگئے۔
وکی پیڈیا کے مطابق ان کا نام لوگوں میں نہایت متضاد ردعمل کو جنم دیتا ہے ۔ کوئی اس کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے، کسی کا خیال ہے کہ اس نے جنسیت اور جنس پرستی کو فروغ دیا۔انتقال کے بعد سے یہ یہودی مفکر نہ صرف لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے، بلکہ اسے یاد کیا جاتا ہے اور اس کے کام پر بھی غور و خوص ہوتا رہتا ہے۔
فرائیڈ کے کام کو سمجھنے کی کوشش ابھی جاری ہے۔ نوبل انعام یافتہ سائیکاٹرسٹ ’’ڈاکٹر ایرک کینڈیل‘‘ نے ابتدا سائیکو انالسس کی حیثیت سے کی تھی۔ وہ نیورو سائنس اور سائیکو انالسس کے درمیان خلیج پاٹنے کے لیے کام کرتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فرائیڈ ایک جینیس اور نہایت پُرمغز و پُرفکر آدمی تھا۔ اس کی بصیرت اور تخیل کا کوئی ثانی نہیں۔ اگرچہ اس کے بہت سے نظریات غلط ثابت ہوئے لیکن اس نے ہمیں دماغی پیچیدگیوں کی عمدہ تصویر بنا کر دکھا دی۔ وہ 20ویں صدی کے عظیم مفکر ین میں شامل ہے۔ اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ہم جو بہت کچھ کرتے ہیں، وہ لاشعوری طور پر ہوتا ہے۔ یہ بھی اسی نے بتایا کہ خوابوں کے نفسیاتی مطالب ہوتے ہیں اور یہ کہ شیر خوار بچہ بھی سوچنے سمجھنے والا فرد ہوتا ہے۔ اسے بھی خوشگوار اور ناخوشگوار تجربات ہوتے ہیں۔ فرائیڈ نے ہمیں بتایا کہ کسی مریض کی گفتگو کو اگر توجہ سے سنا جائے، تو اس بارے میں بہت علم ہو جاتا ہے کہ اس کا تحت الشعور کیا بتا رہا ہے اور یہ سب انقلابی باتیں ہیں۔
وکی پیڈیا کے مطابق، فرائیڈ نے کہا تھا کہ ایک دن آئے گا جب ہمیں سائیکو انالسس اور ذہن کی بایولوجی کو باہم یکجا کر نا پڑے گا، لیکن مشکل یہ ہو گئی کہ آنے والی نسلیں سائیکو انالسس کو بایولوجی پر مبنی سائنس بنانے میں ناکام رہیں۔ کیوں کہ دواؤں کے مقابلے میں یہ دقت طلب علاج ہے، اور مہنگا بھی ہے۔ چناں چہ اس کی مقبولیت کم ہوتی گئی۔ اسے جدید سائنسی خطوط پر ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اگر آئندہ 1 5برس میں یہ ہوگیا، تو دماغی امراض کے شعبے میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔