وکی پیڈیا کے مطابق اردو اور پنجابی کے اہم ترین شاعروں میں سے ایک منیر نیازی 26 دسمبر 2006ء کو لاہور میں وفات پاگئے۔
منیر نیازی نے بی اے تک تعلیم پائی۔ جنگِ عظیم کے دوران میں ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہوگئے لیکن جلد ہی ملازمت چھوڑ کر گھر واپس آ گئے۔ برصغیر کی آزادی کے بعد لاہور آ گئے۔
ان کی ابتدائی شاعری قیامِ ساہیوال کے ایام کی یادگار ہے۔ منٹگمری (اب ساہیوال)میں انھوں نے ’’سات رنگ‘‘کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا۔ لاہور منتقلی کے بعد فلمی گانے بھی لکھے۔
منیر نیازی کی غزل میں حیرت اور مستی کی ملی جلی کیفیات نظر آتی ہیں۔ ان کے ہاں ماضی کے گمشدہ منظر اور رشتوں کے انحراف کا دکھ نمایاں ہے۔ ان کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر محمد افتخارشفیع اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’منیر نیازی بیسویں صدی کی اردوشاعری کی اہم ترین آواز ہیں۔ ان کا شعری لب ولہجہ اپنی انفرادیت کے ساتھ ہمیشہ انہیں نمایاں مقام عطا کرے گا۔‘‘
آپ کی ذیل میں دی جانے والی نظم آج تک سوشل میڈیا پر جوانوں اور نوجوانوں کی من بھاتی نظموں میں سے ایک ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں