قرآن وسنت کی روشنی میں جمہور علمائے کرام قربانی کے اسلامی شعار ہونے اور ہر سال قربانی کا خاص اہتمام کرنے پر متفق ہیں۔ البتہ قربانی کو واجب یا سنت مؤکدہ کا ٹائٹل دینے میں اختلاف ہے۔
حضرتِ امام ابوحنیفہؒ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر صاحبِ حیثیت پر اس کے وجوب کا فیصلہ فرمایا ہے۔ حضرتِ امام مالک ؒ بھی قربانی کے وجوب کے قائل ہیں۔ حضرتِ امام احمد بن حنبلؒ کا ایک قول بھی قربانی کے وجوب کا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی قربانی کے واجب ہونے کے قول کو ہی راجح قرار دیا ہے۔ البتہ دوسری جماعت نے قربانی کے سنت مؤکدہ ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے، لیکن عملی اعتبار سے امتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قربانی کے دنوں میں قربانی کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے اور وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنا غلط ہے۔ خواہ اس کو جو بھی ٹائٹل دیا جائے۔ کیوں کہ ہمارے نبیؐ کے فرمان کے مطابق ان ایام میں کوئی بھی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں۔
’’جواہر الاکلیل شرح مختصر خلیل‘‘ میں امام احمد بن حنبلؒ کا مؤقف تحریر ہے کہ اگر کسی شہر کے سارے لوگ قربانی ترک کردیں، تو ان سے قتال کیا جائے گا۔ کیوں کہ قربانی اسلامی شعار ہے۔
صحابہ وتابعین عظام سے استفادہ کرنے والے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ (80 تا150ھ) کی قربانی کے وجوب کی رائے احتیاط پر مبنی ہے۔
قربانی کے وجوب کی دلائل:۔ قرآن و سنت میں قربانی کے واجب ہونے کے متعدد دلائل ہیں۔ یہاں اختصار کی وجہ سے چند دلائل ذکر کیے جارہے ہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (سورۃ الکوثر ۲) ’’نماز پڑھیے اپنے رب کے لیے اور قربانی کیجیے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کرنے کاحکم (امر) دیا ہے۔ عربی زبان میں امر کا صیغہ عموماً وجوب کے لیے ہوا کرتا ہے۔ وَانْحَرْ کے متعدد مفہوم مراد لیے گئے ہیں، مگر سب سے زیادہ راجح قول قربانی کرنے کا ہی ہے۔ اردو زبان میں تحریر کردہ تراجم وتفاسیر میں قربانی کے ہی معنی تحریر کیے گئے ہیں۔ جس طرح فَصَلِّ لِرَبِّکَ سے نماز عید کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے، اسی طرح وَانْحَرْ سے قربانی کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ (اعلاء السنن)
نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو، پھر بھی قربانی نہ کرے، تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد ۳۲۱/۲، ابن ماجہ۔ باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا؟ حاکم ۳۸۹/۲)
عصرِ قدیم سے عصرِ حاضر کے جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں نبی اکرمؐ نے قربانی کی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر سخت وعید کا اعلان کیا ہے اور اس طرح کی وعید عموماً ترک واجب پر ہی ہوتی ہے۔
٭ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کرلی، تو اسے اس کی جگہ دوسری قربانی کرنی ہوگی۔ قربانی نماز عید الاضحی کے بعد بسم اللہ پڑھ کر کرنی چاہیے۔ (بخاری۔کتاب الاضاحی۔باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد، مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب وقتہا)
اگر قربانی واجب نہیں ہوتی، تو حضور اکرمؐ نمازِ عیدالاضحی سے قبل قربانی کرنے کی صورت میں دوسری قربانی کرنے کا حکم نہیں دیتے، باوجودیہ کہ اُس زمانہ میں عام حضرات کے پاس مال کی فراوانی نہیں تھی۔
٭ نبی ؐنے عرفات کے میدان میں کھڑا ہوکر فرمایا: ’’اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر قربانی کرنا ضروری ہے۔‘‘ (مسند احمد ۲۱۵/۴، ابوداود ۔باب ماجاء فی ایجاب الاضاحی، ترمذی۔ باب الاضاحی واجبۃ ہی ام لا)
٭ رسولؐ اللہ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی ۱۸۲/۱)
مدینہ منورہ کے قیام کے دوران میں رسولؐ اللہ سے ایک سال بھی قربانی نہ کرنے کا کوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا، اس کے برخلاف احادیث صحیحہ میں مذکور ہے کہ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران میں آپؐ نے ہر سال قربانی کی، جیساکہ مذکورہ حدیث میں وارد ہے۔
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ (محلیٰ بالآثارج ۶ ص ۳۷، کتاب الاضاحی)
معلوم ہوا کہ مقیم پر قربانی واجب ہے۔
جب دلائلِ شرعیہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قربانی واجب ہے، تو ہر صاحبِ استطاعت کو قربانی کرنی چاہیے۔ اگر ایک گھر میں ایک سے زیادہ صاحبِ استطاعت ہیں، تو ہر صاحبِ استطاعت کو قربانی کرنی چاہیے۔ ہاں، چند حضرات (جو صاحبِ استطاعت نہیں) کی طرف سے ایک قربانی کرکے ان کے لیے ثواب کی نیت کی جاسکتی ہے۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔