پاکستانی معاشرے کے عام لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے مذہبی علما کی طرف دیکھتے ہیں اور اُن پر اثرات بھی علما کے زیادہ ہوتے ہیں۔ آج بھی علمائے مذہب اور آیمۂ مساجد اگر عوام سے یہ کہیں کہ پانی کی قلت ہے، اسے ضائع نہ کرو اور کم سے کم استعمال کرو، تو مجھے یقین ہے بہت کم وقت میں کافی فرق آئے گا۔
آج اگر علما عوام سے یہ کہیں کہ اگر ایک بلب سے گزارا ہوتا ہو، تو دوسرا بلب روشن مت کرو، تو یقینا بہت فائدہ ہوگا۔
اگر علما عوام کو یہ بتائیں کہ گوشت میں مردار گوشت کا شبہ ہے یا اس کی قیمت بہت زیادہ ہوگئی ہے، اس لیے ہفتے میں تین یا چار دن گوشت نہ کھاؤ، تو یقینا کئی امور اس حوالے سے درست ہوجائیں گے۔
اگر علما کہیں کہ اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کراؤ، تو حکومت کے لیے یقینا مزید سکولوں کا بندوبست کرنا پڑے گا۔
اگر علما عوام کو یہ سمجھائیں کہ صفائی ایمان کا حصہ ہے۔ اپنے گھروں، گلیوں اور بازاروں کو صاف رکھو، تو یقینا قابل رشک تبدیلی ہوگی۔
اگر علما عوام کو سمجھائیں کہ پودے درخت اور جان دار رب العالمین کی مخلوق ہیں، یہ زندگی اور ماحول کو متوازن رکھتے ہیں۔ ان کی حفاظت کرو، تو چند دن میں ملک سر سبز و شاداب ہوجائے گا۔
اگر علما لوگوں کو سمجھائیں کہ دھواں صحت کے لیے مضر ہے، تو اگلے دن کسی بھی رکشے کی دُم سے دھویں کے مرغولے اُٹھتے نظر نہیں آئیں گے۔
اگر علما عوام کو بتادیں کہ نبی کریمؐ نے صاف پانی کو آلودہ کرنے سے منع فرمایا ہے، تو ہمارا پانی صاف ہوجائے گا۔
اگر علما لوگوں کو بتادیں کہ ظلم، جبر، لوٹ کھسوٹ اور حق تلفیوں سے گریز کرو، تو کل ضلع کچہریوں کی مشکلات سے عوام فارغ ہوجائیں گے۔
اگر علما عوام اور تاجروں کو سمجھادیں کہ لین دین میں دھوکا دہی اور غلط اشیا کی فروخت نہ کریں، تو کل بے شمار معاشرتی اور جسمانی امراض ختم ہوجائیں گے۔
اگر علما، حکومت اور عوام کو سمجھادیں کہ قرآن کریم کا عزت و احترام ہم پر فرض ہے، تو بچوں کے بستوں میں پڑے قرآن کے پاروں کی بے حرمتی نہ ہوگی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں کے بستے چوتڑوں پر لٹکائے ہوئے ہوتے ہیں اور کلاس رومز کی ناقص کرسیوں کی وجہ سے بچے ان پاروں بھرے بستوں پر بیٹھتے ہیں۔
اگر علما لوگوں کو سمجھائیں کہ پوری کائنات کا نظام عدل پر استوار ہے اور ہر معاملے میں ہر شخص اپنے جذبات اور خواہشات پر عدل کو ترجیح دے، تو ہمارے بے شمار مسائل حل اور مشکلات آسان ہوجائیں گے۔
اگر علما مسلمانوں کو یہ سمجھادیں کہ عبادت کی ایک اور سب سے اہم معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح ایک زر خرید غلام اپنے مالک کے کہنے پر ہر وہ کام یا بات کرتا جس کے کرنے کا اُسے کہا گیا ہو اور ہر اُس کام یا بات سے مکمل اجتناب کرتا ہے، جس سے مالک نے اُس کو منع کیا ہوتا ہے، تو دوسرے دن سے نیکیاں زیادہ اور گناہ کم ہوجائیں گے۔
اگر علما لوگوں کو جھوٹ بولنے، غیبت کرنے، چغلی کھانے خوشامد کرنے، ایک دوسرے کے حقوق اور حدود کا خیال نہ رکھنے کے برے نتائج پر تعلیم دیں، تو زندگی سے بے شمار کڑواہٹیں ختم ہوجائیں گی۔ سیاسی اور حکومت معاملات میں عوام کی درست رہنمائی بہت اہم ہے۔ آئمہ مساجد بجائے اس کے کہ ایک سیاسی جماعت کے ارکان اور نقیب بن جائیں، گو چاہے کہ وہ عوام کی اُن ہدایات پر رہنمائی کریں جو اُمورِ سلطنت و حکومت میں قرآن و سنت نے دی ہیں۔ مسلمانوں کو کس شخص کو اپنا امیر منتخب کرنا چاہیے؟ اُس میں کون کون سی خواص ضروری ہیں؟ مثلاً امورِ حکومت و ریاست میں عالم ہونا، تعلیم یافتہ ہونا، صادق و آمین سچا اور دلیر ہونا، معاملہ فہم، دانشمند، زیرک ہونا، وہ عادل ہو اور احکاماتِ دین کا پابند ہو۔
ہم عام لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ علما نے کئی ایک اہم دینی معاملات عام لوگوں یا کم فہم لوگوں کے سپرد کیے ہیں۔ اول ترین معاملہ تبلیغِ ’’دین‘‘ کا ہے کہ چند ہفتوں کے گشت، شب جمعہ وغیرہ کے بعد کوئی بھی شخص احادیث اور ان سے متعلقہ مضامین بیان کرنا شروع کر دیتا ہے۔ حالاں کہ احادیث بیان کرنا یا واقعاتِ صحابہ بیان کرنا بہت مشکل اور ذمہ داری کا کام ہے۔ اُن کے بیان کے لیے ان کا گہرا علم ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے اس طرف علما کی اپنی توجہ ضروری ہے۔ کیوں کہ اس میں نازک مذہبی مباحث ہوتے ہیں۔ اس میں بڑی احتیاط اور بڑی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔
مساجد اور ان کے معاملات پر آیمۂ کرام کو خصوصاً مسلسل نظر رکھنا چاہیے۔ بعض جگہوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ مخلص مسلمان یا اُس مسجد میں پڑھنے والے بچے اور نوجوان بعض امور میں اعتدال کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ مساجد کی بے ضرورت اور بہت زیادہ آرائش و زیبائش فضول خرچی کی حد تک اخراجات پر شریعت کی روشنی میں غور ضرور کرنا چاہیے۔ اسی پیسہ جو غیر ضروری رنگ و روغن اور زیبائش پر خرچ ہوتا ہے، کو اگر اساتذہ کی مشکلات کم کرنے پر خرچ کیا جائے، تو میرے خیال میں زیادہ بہتر ہوگا۔ اُساتذہ یعنی مدرسین بہت کم مراعات یافتہ ہوتے ہیں۔ اُن کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں۔ اگر سنگِ مرمر اور قالینوں کی جگہ یہی پیسہ مدرسین اور طلبہ کی فلاح پر خرچ ہو، تو بہتر ہوگا۔ نبی کریمؐ کی مسجد مبارک کیسی تھیں؟ اس کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
میں ایک قریب المرگ عمر رسیدہ آدمی ہوں۔ بڑی عمر میں تیز آواز انسان کے لیے ایک سزا سے کم نہیں ہوتی۔ مخلص مسلمانوں نے مساجد کے اندر بھی کئی ایک لاؤڈ سپیکرز نصب کیے ہوتے ہیں۔ پھر سپیکر کا ماؤتھ پیس خطیب یا مقرر کے ہونٹوں کے قریب تر ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی مشین کی آواز کو بھی بڑھایا جاتا ہے۔ خطیب یا مقرر خود تو خطبہ یا تقریر میں منہمک ہوتا ہے، اس لیے وہ مسجد کے ہال میں کئی ایک لاؤڈ سپیکروں کی اونچی آوازوں سے بے خبر اور غیر متاثر ہوتا ہے، لیکن ہال کے اندر بیٹھے نمازی خاص کر بیمار اور ضعیف اشخاص بہت مشکل میں ہوتے ہیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ جلد از جلد اس شور سے وہ فارغ ہوجائیں۔ اس طرح لاؤڈ سپیکرز تک طالب العلموں اور نعت خوان حضرات کی غیر معتدل رسائی اور غیر معتدل استعمال اڑوس پڑوس کے لوگوں کی دل آزاری اور بد دعاؤں کا سبب بنتا ہے۔ علما اور آیمۂ مساجد کا اس معاملے پر خصوصی غور اور اسے اعتدال میں لانے کی فکر لازمی کرنی چاہیے۔ پہلے تو ہال کے اندر لاؤڈ سپیکروں کے لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ پھر بھی اگر ضروری ہو، تو ایک عدد ہلکا نفیس قسم کا سپیکر مناسب مقام پر لگانا چاہیے۔ مساجد میں موجودہ یہ رواج بہت تکلیف دہ ہے اور مجھ جیسے کمزوروں کو مساجد سے دور رہنے پر اکساتا ہے۔ فروخت کرنے والے تو زیادہ سے زیادہ سپیکرز اور تار وغیرہ فروخت کرنا چاہتے ہوں گے، لیکن آیمۂ کرام اعتدال کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔
اس طرح بغیر آیمہ کی اجازت کے مذہبی جذبات سے مغلوب قاری، نعت خواں، بچے اور بڑے، مساجد کے لاؤڈ سپیکروں کا غیر ضروری استعمال کرتے ہیں۔ ان کو حدود میں رکھنا آیمۂ کرام کے لیے ضروری ہے۔ آج کل مساجد کے ہالوں میں شور اور تیز آواز عبادت کو تباہ کرنے والے ہیں۔ مذہبی جوش میں اعتدال سے ہٹ جانا بھی شیطانی سوچ کو بڑھادیتا ہے۔ مساجد کو اعتدال سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ نظر رکھنے والا ہر جگہ ناظر ہے اور اعتدال سے بڑھ جانے والوں کی سرکوبی کرتا رہتا ہے۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔