2019ء میں ایک فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس فلم میں ایک حساس موضوع کو لطیف انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ ایک پندرہ، سولہ سال کا لڑکا کالج میں انٹری لیول کا ایگزام دیتا ہے۔ اس کو صرف یہ فکر ہوتی ہے کہ کسی طریقے سے کالج میں داخلہ ہوجائے۔ وہ ’’اینٹرینس ایگزام‘‘ دینے کے بعد بھی رزلٹ کی فکر میں گھلا جا رہا ہوتا ہے۔ اس کا باپ اس کو تسلی دیتا ہے کہ ’’پریشان نہ ہو، داخلہ ہوجائے گا۔ اور ہم رزلٹ والے دن سیلی بریٹ بھی کریں گے۔‘‘ جس دن رزلٹ آتا ہے، تو پتا چلتا ہے کہ لڑکا فیل ہوگیا اور اس کے سوا اس کے باقی تمام دوستوں کا ایڈمیشن ہوگیا۔ یہ خبر سن کر وہ لڑکا اس قدر دل برداشتہ ہوتا ہے کہ اپنے دوست کے گھر کی بالکونی سے خود کو گرا لیتا ہے۔ اس کے لیے سب سے بڑھ کر یہ احساس تکلیف دہ ہوتا ہے کہ وہ اب ایک ’’لوزر‘‘ کہلائے گا۔
لڑکا ایمرجنسی میں اسپتال پہنچایا جاتا ہے، جہاں اس کو انتہائی نگہداشت میں داخل کیا جاتا ہے…… اور ڈاکٹروں کے مطابق اس کے بچنے کی امید بہت کم ہوتی ہے۔
لڑکا جب ہوش میں آتا ہے، تو اس کا باپ اس کو اپنی کالج کی زندگی کی کہانی سناتا ہے کہ تم ایک ایڈمیشن ٹیسٹ میں فیل ہونے پر خود کو لوزر قرار دے رہے ہو؟ تمہارا باپ جس کو تم ایک کامیاب آدمی سمجھتے ہو، وہ ساری زندگی ’’لوزر‘‘ کا ’’ٹیگ‘‘ پہنے خوشی خوشی گھومتا رہا۔
قارئین، یہ ایک کامیاب فلم تھی اور اس کو کافی سراہا گیا…… لیکن افسوس کہ اس فلم کے ہیرو نے 2020ء میں اپنے ہی فلیٹ میں خود کشی کرلی…… یعنی اس فلم کا میسج لوگوں تک تو شاید پہنچ گیا…… مگر خود اس میں مرکزی کردار ادا کرنے والا اس میسج کو اپنے ذہن میں نہ بٹھا سکا۔
٭ لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟
٭ ایک انسان ایسی ذہنی سطح پر کیوں پہنچتا ہے کہ خود کشی تمام مسائل کا حل نظر آتی ہے؟
’’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ (ڈبلیو ایچ اُو) کی 2014ء میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 8 لاکھ افراد خودکشی کرکے اپنی جان لیتے ہیں۔
اس طرح پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 12 سے 14 ہزار افراد ہر سال خود کشی کرتے ہیں…… اور یہ رجحان 15 سے 24 سال کی عمر یعنی نوجوان نسل میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔
٭ وجہ کیا ہے ؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’ڈپریشن‘‘، ’’اینگزائٹی‘‘، ’’خود کو کم تر سمجھنا‘‘، ’’ناکام ہونے کا خوف‘‘ یا ’’ناکامی کو برداشت نہ کرنا‘‘، ’’بے روزگاری‘‘، ’’معاشرتی رویے‘‘ وغیرہ خود کشی کی طرف لوگوں کو مائل کرتے ہیں۔
اس میں افسوس ناک بات یہ ہے کہ ’’تعلیمی دباؤ‘‘ کی وجہ سے نوجوان طبقے میں خود کشی کا رجحان سب سے زیادہ پایا جاتا ہے ۔
کئی بچے والدین اور اساتذہ کی جانب سے لادے گئے تعلیمی دباؤ کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوکر خودکشی کربیٹھتے ہیں۔ اولاد کا اچھا گریڈ ماں باپ کی خوشی اور عزت کا باعث ضرور بنتا ہے…… لیکن اچھے مارکس اس بات کی گارنٹی نہیں بن سکتے کہ انسان عملی زندگی میں بھی اتنا ہی کامیاب ہوگا، جتنا وہ اسکول یا کالج لائف میں تھا۔
ہر انسان کا ایک اپنا ٹیلنٹ ہوتا ہے۔ اگر ہر شخص ’’ڈاکٹر‘‘، ’’انجینئر‘‘، ’’چارٹرڈ اکاونٹینٹ‘‘ بنے گا، تو معاشرے سے شاعر، ادیب، مصور اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے لوگ عنقا ہوجائیں گے ۔
دنیا میں ہر انسان کم از کم ایک بار ڈپریشن کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ بعض موقعوں پر ڈپریشن اتنی شدت اختیار کرجاتا ہے کہ اس سے باہر نکل پانا لوگوں کے لیے سخت مشکل کام ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں ناامیدی کا شکار نوجوان مسائل سے نجات پانے کے لیے اپنی زندگی کا چراغ بجھا دیتے ہیں۔
ہر خودکشی کے پیچھے خواہ والدین کی شکل میں ہو…… یا اساتذہ، خاندان یا معاشرے کے کسی فرد کی صورت میں…… یا پھر معاشرتی، معاشی، تعلیمی، مذہبی یا سیاسی پالسیوں کی شکل میں…… ایک نہ ایک ’’وجہ‘‘ ضرور چھپی ہوتی ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
آج کل ٹیکنالوجی نے انسان کے لیے آسانی کے ساتھ ساتھ تنہائی کا تحفہ مفت میں فراہم کیا ہے۔ یہ تنہائی انسان کو دھیرے دھیرے خود پسندی اور نفسیاتی مسائل کی طرف دھکیلتی ہے۔
ماہرین کے مطابق تنہائی کی وجہ سے انسان کے مختلف نفسیاتی امراض میں گرفتار ہوجانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تنہائی ، ڈمینشیا یعنی بھولنے کا مرض، متعدی امراض وغیرہ بھی انسان کے رویے پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ انسان کو سوچنے سے نہیں روکا جاسکتا…… لیکن کچھ باتوں کو نئی نسل کو ذہن نشین کروانا معاشرے کے دانشور افراد اور خاص کر اساتذہ کا فرض ہے جن میں خود پر یقین، ناکامی کو اعتماد سے جھیلنا…… اور مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے جیسے امور شامل ہیں۔
ایک اور توجہ طلب معاملہ یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے کو معاشرہ انتہائی گنہگار سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی نمازِ جنازہ اور غسل و کفن کو بھی درست نہیں سمجھا جاتا…… جب کہ یہ بالکل ایک غلط فکر ہے۔
نمازِ جنازہ اور غسل و کفن اصل میں اکرامِ آدمیت ہے…… اور اس کو فرضِ کفایہ قرار دیا گیا ہے یعنی ایک مردہ انسان کی تجہیز و تکفین کرنا لوگ پر ضروری ہے…… اور اگر کچھ لوگ اس کام کو انجام دے رہے ہوں، تو معاشرے کے دوسرے لوگوں پر سے یہ فرض ہٹ جاتا ہے۔
جن مردوں کا غسل دینا واجب ہے، ان میں مسلمان میت پر سب فقہا کا اتفاق ہے۔ یہاں تک کہ امام شافعی کے مطابق اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی مسلمان اپنے کافر رشتے دار کو غسل دے اور تدفین کرے۔ یہی امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا مذہب ہے۔ اسی طرح سے اکثر اہلِ علم کا اجماع ہے کہ کلمۂ شہادت کا اقرار کرنے والے ہر شخص کی نمازِ جنازہ جائز ہے۔ (بدایتہ المجتہد، ابن رشد، باب 2، صفحہ 315)
مذاہبِ اربعہ میں اس بات پر اتفاق ہے کہ خودکشی کرنے والا دین سے خارج نہیں ہوتا، اس لیے خودکشی کرنے والے کو غسل دیا جائے گا۔اس کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی اور اس کے لیے دعائے مغفرت بھی کی جائے گی۔
نبی کریمؐ کا جہاں تک تعلق ہے، آپؐ نے اس غیرشرعی عمل کی حوصلہ شکنی کرنے کی غرض سے خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ ادا کرنے سے انکار فرمایا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپؐ کو ایک تیر سے ہلاک کر لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔‘‘ (مسلم، الصحیح، کتاب الجنائز، باب ترک الصلاۃ علی القاتل نفسہ، 2: 672، رقم:978)
ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ الفاظ منقول ہیں: ’’اما انا لااصلی علیہ‘‘ یعنی جہاں تک میرا تعلق ہے، تو مَیں اس (خودکشی کرنے والے) کی نمازِ جنازہ میں شرکت نہیں کرتا۔
اس عمل کے جواز کے قائل فقہا کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ میں شرکت نہیں فرمائی…… مگر صحابہ کرام کو اجازت دی کہ اس کی نمازِ جنازہ ادا کریں۔
دراصل نبی کریمؐ کا یہ عمل خود کشی سے کراہت پر محمول ہے۔ جس طرح سے نبی کریمؐ کے حکم سے صحابہ کرام نے مقروض کی نمازِ جنازہ ادا کی…… مگر آپ اس میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ بھی قرض سے کراہت دلانے کے لیے تھا۔ اس لیے نہیں کہ مقروض کافر ہو گیا تھا۔
فقہائے احناف کا موقف بھی یہی ہے کہ خودکشی کرنے والے کو غسل دے کر اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔ علامہ محمد بن علی فرماتے ہیں: ’’جس نے اپنے آپ کو قتل کر دیا، اگرچہ جان بوجھ کر ہو، اسے غسل دیا جائے گا اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔ اسی پر فتوا ہے۔‘‘ (حصکفی، الدرالمختار، 2: 211، بیروت: دار الفکر)
ایک صحیح روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق سے پوچھا گیا کہ ’’اگر شرابی، زانی اور چور مرجائیں، تو کیا ان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے ؟ آپ نے فرمایا: ’’جی ہاں!‘‘
اسی طرح ایک دوسری موثق روایت میں امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اہلِ قبلہ (مسلمانوں) میں سے جو بھی مرے اس پر جنازہ پڑھو اور اس کا حساب اللہ پر چھوڑ دو۔‘‘ (استبصار ، شیخ طوسی جلد اول صفحہ 806)
آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی خود کشی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک استفتا کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’یقینا خودکشی گناہِ کبیرہ ہے اور انسان کا اپنے نفس کا مالک ہونا خودکشی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ ایسے ہی جیسے کہ انسان کا اپنے اموال کا مالک اس میں آگ لگانے کی دلیل نہیں ہوسکتا ہے۔ البتہ ایسے اشخاص کے لیے تمام رسومات دیگر عام مسلمانوں کی طرح انجام دیے جائیں اور ان کی نجات کی دعا کی جائے۔ شاید عفو الٰہی ان کے شاملِ حال ہوجائے۔‘‘ (آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، سوال و جواب)
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں غیر شرعی عوامل سے محفوظ فرمائے اور لوگوں میں امید بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
……………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔