اللہ ربّ العزت کو توبہ بہت پسند ہے۔ خالقِ کائنات ان سے محبت کرتا ہے جو لوگ اس کی بارگاہ میں جھکتے ہیں۔ جب ایک مسلما ن زندگی میں گنا ہ کرتا ہے، غلطیاں کرتا ہے،ظلم کرتا ہے…… لیکن وہ اللہ ربّ العزت کی بارگا ہ میں جھک جاتا ہے اور توبہ کرتا ہے، عاجزی کرتا ہیا ور روتا ہے، تو یقینا توبہ قبول ہوجاتی ہے۔ توبہ اللہ تعالا کا اپنے بندوں پر خصوصی انعام ہے۔ اگر وہ ہماری نافرمانیوں پر سزا دے، تب بھی اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اللہ تعالا کے اس انعام و احسان سے کوئی شخص فائدہ نہ اُٹھائے، تو یقینا یہ بدنصیبی کی بات ہے۔ محققین کے نزدیک کامل توبہ کی چند شرائط ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر انسان اللہ تعالا کی بارگاہ میں اپنے جملہ گناہوں، برائیوں اور نافرمانیوں سے شرمندہ، تائب ہوکر اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرکے دنیا اور آخرت میں عذابِ الٰہی سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔
٭ ندامت و شرمندگی:۔ توبہ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے گناہ، طور طریقوں اور برے اعمال پر شدید پشیمانی اور شرمندگی محسوس کرے، جو کہ درحقیقت برے کاموں سے کنارہ کشی کی طرف پہلا قدم ہے۔ ندامت کے صحیح ہونے کی علامات میں دل کا نرم ہو جانا اور کثرت سے آنسوؤں کا جاری ہونا ہے۔ کیوں کہ جب دل کو اللہ تعالا اور اللہ تعالا کے محبوب رسولؐ کی ناراضی کا احساس جکڑ لے، اور بندہ پر عذابِ الٰہی کا خوف طاری ہو جائے، تو یہ گریہ و زاری کرنے والا اور غم زدہ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے نبی اکرمؐنے ارشاد فرمایا ہے: ’’ندامت ہی توبہ ہے!‘‘ جمہور محققین کے نزدیک خالص ندامت ہی توبہ کی اصل ہے جو کہ خلوصِ دل سے کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔
٭ ترکِ گناہ و معصیت:۔ توبہ کی دوسری شرط ترکِ گناہ و معصیت ہے۔ برے فعل پر شرمندگی اور پشیمانی کے احساس کے بعد بندے کے دل میں گناہ ترک کرنے کا داعیہ جنم لیتا ہے اور بندہ شرم محسوس کرتا ہے کہ اس نے اللہ تعالا کی ایک کم زور اور حقیر ترین مخلوق ہو کر اس کے ساتھ اپنے تعلق، بندگی کی حیا نہ کی اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔ یہ احساس ترکِ گناہ پر منتج ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے، تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ کرلے اور گناہ سے ہٹ جائے اور استغفار کرے، تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے…… لیکن اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ گناہ کرے، تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے پورے دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔‘‘
اللہ تعالا کا ارشادِ گرامی ہے: ’’مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کرلی وہ سنور گئے اورانہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کرلیا، تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عنقریب اللہ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا۔‘‘ (سورۃ النساء)
اس آیتِ مبارکہ کے الفاظ بندے کی توجہ اس طرف مبذول کروا رہے ہیں کہ اس کی سابقہ زندگی میں جس قدر بھی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں، وہ سچے دل کے ساتھ توبہ کا طلب گار بن کر اپنے گناہوں پر ندامت محسوس کرتے ہوئے گڑگڑا کر اللہ ربّ العزت کی بارگاہ سے عفو و درگزر کی درخواست کرے۔
٭ توبہ پر پختہ رہنے کا عزم:۔ بندہ اللہ تبارک و تعالا کے حضور پختہ عہد کرے کہ جن نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں کا ارتکاب وہ کر چکا ہے، آئندہ یہ اس کی زندگی میں کبھی داخل نہیں ہوں گے۔ کیوں کہ توبہ کی ابدی سلامتی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کس قدر اپنے عہد پر پختہ رہتا ہے۔ اس لیے پکا عزم کرے کہ آئندہ یہ گناہ ہر گز نہیں کروں گا۔ اگر شیطان کان میں کہے کہ تو دوبارہ یہ گناہ کرے گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ تقوا کا عزم قبولیتِ توبہ کے لیے کافی ہے۔ بہ شرط یہ کہ اس عزم کو توڑنے کا ارادہ نہ ہو۔ بس توبہ کے وقت اللہ تعالا پر بھروسا کر لیا جائے کہ اے اللہ! میں آپ کے بھروسا پر پکا عزم کرتا ہوں کہ آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا، تو بندہ جب تک گناہوں پر نادم اور تائب رہے گا، اللہ تعالا کی رحمت اس پر سایہ فگن رہے گی۔
اس کے علاوہ حقوق العباد میں سے اگر کسی کے ساتھ ناانصافی یا ظلم کر بیٹھے، تو اولاً اس کے حقوق ادا کرے اور اگر یہ توفیق نہیں پاتا، تو پھر اس سے معافی کا خواست گار ہو، اور اللہ تعالا سے عفو و درگزر کے لیے دست بہ دعا رہے۔ آج بدقسمتی سے مذہبی اور دنیوی اُمور کو علیحدہ علیحدہ پلڑوں میں رکھنے کے باطل طریقۂ کار نے ہمارے معاشرے میں نیکی کے تصور کو دھندلا دیا ہے۔ بیک وقت لوٹ کھسوٹ، ظلم و ناانصافی، حق تلفی اور مفاد پرستی بھی جاری ہے اور عبادت کے ساتھ ساتھ محض لفظی توبہ بھی…… جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس منافقانہ طرزِ عمل کی موجودگی میں ترکِ گناہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ حدیث نبوی ہے کہ ’’گناہ سے باز آئے بغیر توبہ کرنا جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے!‘‘
اللہ عالم الغیب ہے۔ اس کے علم میں ہے کہ کون اپنی توبہ میں سچا اور کون جھوٹا ہے۔ حقیقی توبہ اسی وقت ہوگی جب توبہ کے بعد گناہ کو بھی مکمل طور پر ترک کر دیا جائے۔ بلاشبہ صحیح توبہ وہی ہے جو انسان کے شب و روز، افعال و اعمال اور حالات و کیفیات کو یکسر بدل کر رکھ دے۔ بندہ عبادت و ریاضت کا پیکر بن جائے اور رضائے الٰہی کا حصول اس کی خواہشات کا مرکزو محور بن جائے۔
توبہ اپنے محبوب کے ساتھ پھر سے جڑ جانے کا نام ہے۔ گناہ نے محبت کی حرمت کو مجروح کیا، تو گناہگار احساسِ گناہ سے بوجھل ہوگیا۔ محبوب سے شرم آنے لگی۔ عفو و بخشش کی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، تو ہاتھ کانپ گئے۔ پھر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ایسی ہی توبہ مقبول ہوتی ہے۔ حقیقی توبہ کے بعد بشری کمزوری کے باعث کسی بندے سے گناہ کا سر زد ہوجانا ممکن ہے، لیکن اگر وہ گناہ کرنے کے بعد 70 بار بھی صدقِ دل سے معافی مانگے، تو توبہ قبول ہوگی۔ لہٰذا ان سہل ترین شرائط پر عمل پیرا ہو کر انسان سچی توبہ کی برکات سے دائمی طور پر مستفیض ہوسکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی اس قلیل زندگی کے ایک ایک لمحے کو نیکیوں سے قیمتی بنائیں اور جلداپنے گناہوں سے کامل توبہ کریں، اس سے پہلے کہ توبہ کا وقت نہ رہے اور وقتِ قضا آجائے۔ اللہ ہمیں سچی و پکی توبہ کرنے کی توفیق دے جو اتنی کامل ہو کہ آئندہ کے لیے ہمارے اور گناہوں کے درمیان اتنا فاصلہ کردے جتنا مشرق سے مغرب میں ہے، آمین!
……………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔