قارئین، سوشل میڈیا پر کوئی بھی دینی پیغام تحقیق کیے بغیر ہرگز فارورڈ نہ کریں۔
صفرالمظفر ہجری کیلنڈر کا دوسرا مہینا ہے، جو محرم الحرام کے بعد اور ربیع الاول سے پہلے آتا ہے۔ اس مہینے میں معمول کی ہی عبادت کی جاتی ہے، یعنی کوئی خاص عبادت اس مہینے میں مسنون یا مستحب نہیں۔ نیز یہ دیگر مہینوں کی طرح ہی ہے، یعنی خاص طور پر اس مہینہ میں آفات و مصائب نازل ہونے کا عقیدہ رکھنا غلط ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں اس ماہ کو نحوست والا مہینا سمجھا جاتا تھا، اس لیے وہ اس ماہِ میں سفر کرنے سے گریز کیا کرتے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت کا غلط و فاسد عقیدہ اِن دنوں سوشل میڈیا پر ہمارے ہی دینی بھائیوں کی طرف سے شیئر کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں نقصانات بھی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کی اچھی خاصی تعداد پڑھے بغیر اور میسیج کی تحقیق کیے بغیر دوسروں کو فارورڈ کر دیتی ہے۔ ان پیغامات میں بعض اوقات نبی اکرمؐ کی طرف ایسی بات منسوب ہوتی ہے جو نبی اکرمؐ نے زندگی میں کبھی بھی نہیں کہی۔ حالاں کہ اس پر سخت وعیدیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں جیسا کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص میری نسبت وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی، تو وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے۔‘‘ (بخاری)
نبی اکرمؐ کا یہ فرمان مختلف الفاظ کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں مذکور ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ نبی اکرمؐ نے متعدد مرتبہ ایسا کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ لہٰذا نبی اکرمؐ کی طرف منسوب کوئی بھی بات بغیر کسی تحقیق کے ہرگز فارورڈ نہ کریں۔ اسی طرح فرمان رسولؐ ہے: ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بلا تحقیق بیان کرے۔‘‘ (مسلم)
ایک دوسری حدیث میں آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے میری طرف منسوب کرکے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی حدیث بیان کی تو وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے۔‘‘ (مسلم)
نبی اکرمؐ نے ماہِ صفر سے متعلق اِس باطل عقیدہ کا انکار آج سے 1400 سال قبل ہی کردیا تھا۔ چناں چہ حدیث کی سب سے مستند کتاب میں وارد ہے کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ماہِ صفر میں نحوست ہونے کا عقیدہ بے حقیقت بات ہے۔‘‘ (بخاری)
نحوست تو دراصل انسان کے عمل میں ہوتی ہے کہ وہ خالقِ کائنات کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے، باوجود یہ کہ وہ اپنے وجود اور بقا کے لیے بھی اللہ تعالا کے حکم کا محتاج ہے۔ اور ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ وہ بھی موت کا مزہ چکھ لے گا اور اس کے بعد انسان کو اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب اللہ تعالا کو دینا ہوگا۔ انسان کی زندگی کا جو وقت بھی اللہ کی ناراضی میں گزرا، دراصل وہ منحوس ہے نہ کہ کوئی مہینا یا دن۔ لہٰذا جو انسان ماہِ صفر میں اچھے کام کرے گا، تو یہی مہینا اس کے لیے خیر و برکت اور کامیابی کا سبب بنے گا اور انسان جن اوقات اور مہینوں میں بھی برے کام کرے گا زندگی کے وہ لمحات اُس کے لیے منحوس ہوں گے۔ مثلاً نماز فجر کے وقت کچھ لوگ بیدار ہوکر نماز پڑھتے ہیں اور کچھ لوگ بلا عذر بستر پر پڑے رہتے ہیں اور نماز نہیں پڑھتے، تو ایک ہی وقت کچھ لوگوں کے لیے برکت اور کامیابی کا ذریعہ بنا، اور دوسروں کے لیے نحوست۔ معلوم ہوا کہ کسی وقت یا مہینا میں نحوست نہیں ہوتی بلکہ ہمارے عمل میں برکت یا نحوست ہوتی ہے۔ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالا ارشاد فرماتا ہے: ’’آدم کی اولاد زمانہ کو گالی دیتی ہے، اور زمانہ کو برا بھلا کہتی ہے، حالاں کہ زمانہ تو مَیں ہوں، رات دن کی گردش میرے ہاتھ میں ہے۔‘‘ (بخاری)
یعنی بعض لوگ حوادثِ زمانہ سے متاثر ہوکر زمانے کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں، حالاں کہ زمانہ کوئی کام نہیں کرتا، بلکہ زمانہ میں جو واقعات اور حوادث پیش آتے ہیں، وہ اللہ تعالا کی مرضی اور اس کے حکم سے ہوتے ہیں۔
غرض یہ کہ قرآنِ کریم کی کسی بھی آیت یا نبی اکرمؐ کے کسی بھی فرمان میں یہ مذکور نہیں کہ ماہِ صفر میں نحوست ہے یا اس مہینے میں مصیبتیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے پوری امتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ صفر کا مہینا دیگر مہینوں کی طرح ہے، یعنی اس مہینے میں کوئی نحوست نہیں۔ سیرتِ نبویؐ کے متعدد واقعات، بعض صحابیات کی شادیاں اور متعدد صحابیوں کا قبولِ اسلام بھی اسی ماہ میں ہوا ہے۔ اور عقل سے بھی سوچیں کہ مہینا یا زمانہ یا وقت کیسے اور کیوں منحوس ہوسکتا ہے؟ بلکہ ماہِ صفر میں تو نحوست کا شبہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اس کا نام صفرالمظفر ہے جس کے معنی ہی ہیں ’’کامیابی کا مہینا‘‘۔ جس مہینے کے نام میں ہی خیر اور کامیابی کے معنی پوشیدہ ہوں، وہ کیسے نحوست کا مہینا ہوسکتا ہے؟
بعض حضرات یہ سمجھ کر کہ صفر کے ابتدائی تیرہ دنوں میں آپؐ بیمار ہوئے تھے، شادی وغیرہ نہیں کرتے ہیں، بالکل غلط ہے۔ کیوں کہ قرآن و حدیث میں اس نوعیت کی کوئی بھی تعلیم موجود نہیں۔ نیز تحقیقی بات یہ ہے کہ نبی اکرمؐ صفر کے ابتدائی دنوں میں نہیں بلکہ ماہِ صفر کے آخری ایام یا ربیع الاول کے ابتدائی ایام میں بیمار ہوئے تھے۔ اور ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو آپؐ کی وفات ہوئی تھی۔
بعض ناواقف لوگ ماہِ صفر کے آخری بدھ کو خوشی کی تقریب مناتے ہیں اور مٹھائی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں، جب کہ اس کی شریعتِ اسلامیہ میں کوئی حقیقت نہیں۔ کیوں کہ لوگوں میں یہ بات غلط مشہور ہوئی ہے کہ اس دن نبی اکرمؐ صحت یاب ہوئے تھے۔ حالاں کہ یہ بالکل صحیح نہیں، بلکہ بعض روایات میں اس دن میں حضورِ اکرمؐ کی بیماری کے بڑھ جانے کا تذکرہ ملتا ہے۔ لہٰذا ماہِ صفر کا آخری بدھ مسلمانوں کے لیے خوشی کا دن ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہود و نصارا خوش ہوسکتے ہیں، ممکن ہے کہ انہیں کی طرف سے یہ بات پھیلائی گئی ہو۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کی طرح برصغیر کے تمام مکاتبِ فکر کا بھی یہی موقف ہے کہ صفر کے مہینے میں کوئی نحوست نہیں، اس میں شادی وغیرہ بالکل کی جاسکتی ہے۔ اور ماہِ صفر کے آخری بدھ میں خوشی کی کوئی تقریب منانا دین نہیں بلکہ نبی اکرمؐ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
اِن دِنوں سوشل میڈیا پر کسی بھی پیغام کو فارورڈ کرنے کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے، چاہے ہم اس پیغام کو پڑھنے کی تکلیف گوارہ کریں یا نہ کریں، اور اسی طرح اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت بھی سمجھیں یا نہ سمجھیں کہ میسج صحیح معلومات پر مشتمل ہے یا جھوٹ کے پلندوں پر۔ البتہ اس کو فارورڈ کرنے میں انتہائی عجلت سے کام لیا جاتا ہے۔ جب کہ میسج فارورڈ کرنے کے لیے نہیں بلکہ اصل میں پڑھنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ غلط معلومات پر مشتمل میسج کو فارورڈ کرنا ہمارے لیے جائز نہیں۔ خاص کر اگر وہ پیغام دینی معلومات پر مشتمل ہو، کیوں کہ اس سے غلط معلومات دوسروں تک پہنچے گی۔
مثال کے طور پر کبھی کبھی سوشل میڈیا کے ذریعہ پیغام پہنچتا ہے کہ اللہ تعالا کے 5 نام کسی بھی 11 مسلمانوں کو بھیج دیں، تو بڑی سے بڑی پریشانی حل ہوجائے گی۔ اسی طرح فلاں پیغام اگر اتنے احباب کو بھیج دیں، تو اس سے فلاں فلاں مسائل حل ہوجائیں گے، ورنہ مسائل اور زیادہ پیدا ہوں گے۔ اسی طرح کبھی کبھی سوشل میڈیا پر میسج نظر آتا ہے کہ فلاں پیغام اتنے لوگوں کو بھیجنے پر جنت ملے گی۔ کبھی کبھی تحریر ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے سچی محبت نہ کرنے والا ہی اس میسیج کو فارورڈ نہیں کرے گا، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے پیغام کا شریعتِ اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ عموماً جھوٹ اور فریب پر مشتمل ہوتے ہیں۔
موجودہ زمانہ میں تعلیم و تعلم اور معلومات فراہم کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے، یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے، بشرط یہ کہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ مگر بعض حضرات کچھ پیغام کی چمک دمک دیکھ کر اس کو پڑھے بغیر یا تحقیق کیے بغیر دوسروں کو فارورڈ کر دیتے ہیں۔ اب اگر غلط معلومات پر مشتمل کوئی پیغام فارورڈ کیا گیا، تو وہ غلط معلومات ہزاروں لوگوں میں رائج ہوتی جائیں گی، جس کا گناہ ہر اس شخص پر ہوگا جو اس کا ذریعہ بن رہا ہے۔ لہٰذا تحقیق کیے بغیر کوئی بھی پیغام خاص کر دینی معلومات سے متعلق فارورڈ نہ کریں، جیساکہ احادیثِ رسولؐ کی روشنی میں ذکر کیا گیا۔
یاد رکھیں کہ انسان کے منھ سے جو بات بھی نکلتی ہے یا وہ لکھتا ہے، تو وہ بات اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالا کا ارشاد ہے: ’’انسان منھ سے جو لفظ بھی نکالتا ہے، اس کے پاس نگہبان (فرشتے اسے لکھنے کے لیے) تیار رہتے ہیں۔‘‘ (سورۃ ق 18)
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ غلط خبروں کے شائع ہونے کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا ہے۔ مثال کے طور پر غزوۂ احد کے موقع پر آپؐ کے قتل ہونے کی غلط خبر اُڑا دی گئی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی، جس کا نتیجہ تاریخی کتابوں میں موجود ہے۔ اسی طرح غزوۂ بنو مصطلق کے موقع پر منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگا کر غلط خبر پھیلائی تھی جس سے نبی اکرمؐ کی شخصیت بھی متأثر ہوئی تھی۔ ابتدا میں یہ خبر منافقین نے اڑائی تھی، لیکن بعد میں کچھ سچے مسلمان بھی اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس میں شامل ہوگئے تھے۔ آخر میں اللہ تعالا نے اپنے پاک کلام میں حضرت عائشہؓ کی برأت نازل فرمائی۔ اور اس واقعہ میں اللہ تعالا نے جھوٹی خبر پھیلانے والوں کی مذمت کی، جنہوں نے ایسی غلط خبر کو رائج کیا کہ جس کے ذریعہ حضرت عائشہؓ کے دامنِ عفت و عزت کو داغ دار کرنے کی مذموم کوشش کی گئی تھی۔ ارشاد باری ہے: ’’ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصہ کو سر انجام دیا ہے اس کے لیے عذاب بھی بہت بڑا ہے۔ (سورۃ النور 11)
اسی طرح آج بعض ویب سائٹیں اسلام سے متعلق مختلف موضوعات پر ریفرنڈم (رائے طلبی) کراتی رہتی ہیں۔ ان ریفرنڈم میں ہمارے بعض بھائی کافی جذبات سے شریک ہوتے ہیں، اور اپنی صلاحیتوں کا ایک حصہ اس میں لگا دیتے ہیں۔ عموماً اس طرح کی تمام ویب سائٹیں اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے ہی استعمال کی جاتی ہیں۔ ان پر کوئی توجہ نہیں دینی چاہیے۔ جیسا کہ اللہ تعالا نے ارشاد فرمایا ہے: ’’اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے، تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچادو۔ پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔‘‘ (سورۃ الحجرات 6)
نیز اللہ تعالا نے ارشاد فرمایا: ’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے خواہاں رہتے ہیں، ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘ (سورۃ النور 19)
خلاصۂ کلام:۔ سوشل میڈیا کو ہمیں اپنے شخصی و تعلیمی و سماجی و تجارتی مراسلات کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ دینِ اسلام کی تبلیغ اور علومِ نبوت کو پھیلانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ کیوں کہ موجودہ دور میں یہی ایک ایسا میڈیا ہے جس کے ذریعے ہم اپنی بات دوسروں تک بآسانی پہنچا سکتے ہیں۔ ورنہ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا تو عمومی طور پر مسلم مخالف طاقتوں کے پاس ہے۔ نیز اگر صحیح دینی معلومات پر مشتمل کوئی پیغام مستند ذرائع سے آپ تک پہنچے، تو آپ اس پیغام کو پڑھیں بھی، نیز اپنی استطاعت کے مطابق زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بھی فارورڈ کریں، تاکہ اسلام اور اس کے تمام علوم کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہوسکے۔ لیکن اگر آپ کے پاس کوئی پیغام غیر معتبر ذرائع سے پہنچے تو اس پیغام کو بغیر تحقیق کیے ہرگز فارورڈ نہ کریں۔ ماہِ صفر کے منحوس ہونے یا اس میں مصیبتیں اور آفات نازل ہونے کے متعلق کوئی ایک روایت بھی موجود نہیں، اور نہ آج تک کسی مستند عالمِ دین نے اس کو تسلیم کیا ہے۔ لہٰذا اس نوعیت کے پیغام کو ہرگز ہرگز دوسروں کو ارسال نہ کریں، بلکہ انہیں فوراً ڈیلیٹ کردیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔