وادیِ سوات اور متصلہ علاقے جس طرح قدرتی حسن سے مالا مال ہیں، اسی طرح رب کائنات نے اس سرزمین کو بیش بہا موتیوں سے بھی نوازا ہے۔ جس طرح یہاں کی سرزمین پھلوں اور سبزیوں کے لیے زرخیز ہے، ٹھیک اسی طرح اس مٹی کو اللہ تعالیٰ نے علمی دولت سے بھی نوازا ہے۔ ڈھیر ساری عظیم ہستیوں کو اس مٹی نے جنم دیا ہے۔ ان بزرگ ہستیوں میں ایک ہستی جو ماضی قریب میں ہمیں داغِ مفارقت دے چکی ہے، حضرت مولانا قاری عبد الباعث صدیقیؒ ہیں۔
حضرت مولانا قاری عبد الباعث صدیقی ؒ 1944ء میں ضلع شانگلہ کے علاقے مخوزی چوگا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار کا نام مولوی زیارت گل تھا۔ آپ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ ابھی آپ نے ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا کہ علمی سفر کے لیے گھر سے نکل پڑے۔ صرف گیارہ سال کی عمر میں شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے۔ آٹھ سال کی عمر سے آپ نے اپنے علمی سفر کا آغاز کیا۔ ابتدائی سال یہاں گزارنے کے بعد آپ پشاور تشریف لے گئے، جہاں درسِ نظامی کے لیے دار العلوم سرحد میں داخلہ لیا جو ایک قدیم اور تاریخی دینی درس گاہ ہے۔ احادیثِ مبارکہ سیکھنے کے لئے آپ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک جو کہ ’’دیو بند ثانی‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے، تشریف لے گئے اور وہاں پر درسِ نظامی کا سفر پایۂ تکمیل تک پہنچا کر سندِ فراغت حاصل کی۔
درسِ نظامی سے فراغت کے بعد آپ لاہور تشریف لے گئے اور بین الاقوامی شہریت یافتہ ماہر علم تجوید قاری اظہار احمد تھانوی سے تجویدالقران سیکھنے کے لیے داخلہ لیا۔ پانچ سال کے عرصہ میں تجویدالقران قرأت سبعہ وعشرہ سے فراغت کے بعد ایک دوست کے پرزور اسرار پر بادل نخواستہ تقریباً چودہ ماہ سرکاری سکول میں پڑھایا، لیکن آپ کی خواہش تھی کہ دینی مدرسہ میں درس و تدریس کریں۔ سکول میں عدم دلچسپی کی وجہ سے وہاں پڑھائی چھوڑ دی اور کراچی تشریف لے گئے۔ آپ کے مشہور اساتذہ میں مولانا عبد الحقؒ، مولانا عبد الحلیمؒ، مولانا مفتی فریدؒ اور مولانا قاری اظہار احمد تھانویؒ شامل تھے۔

آپ کا سیاسی تعلق جمعیت علمائے اسلام سے رہا اور 1988ء سے تاحیات مرکزی شوریٰ کے ممبر رہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی نائب امیر بھی رہ چکے ہیں۔ مفتی محمود صاحبؒ کے ساتھ خاصا نزدیکی تعلق رہا۔ حضرت مفتی محمودؒ جب بھی کراچی تشریف لے جاتے، تو آپ ہی ان کے میزبان ہوتے۔ آپ ہی کی گود میں سر رکھ کر مفتی محمود ؒ نے زندگی کی آخری سانس لے کر آخرت کے سفر کا آغاز کیا۔

قاری عبد الباعث صدیقی نے ناظم آباد کراچی میں مدرسہ انوارالقران صدیقیہ وجامع مسجد قدسیہ کے نام پر ایک چھوٹی سی جگہ میں درس قرآن وتجوید اور ساتھ ہی مسجد کی بنیاد رکھی جو وقت کے ساتھ ساتھ تن آور درخت کی صورت اختیار کرکے ایک جامع مسجد اور بڑا مدرسہ بن گیا۔ طویل عرصہ کراچی میں گزارنے کے بعد آپ کے دل میں یہ خیال شدت اختیار کرتا گیا کہ اپنے علاقے کے لوگوں کا بھی مجھ پر حق ہے اور دیارِ غیر کی جگہ جائے ولادت میں علم کا چراغ روشن کرنا چاہئے۔ چنانچہ 1989ء میں کراچی کی مسجد اور مدرسہ اپنے تلمیذ کو سونپ کر کراچی کو خیر باد کہا اور سوات واپس تشریف لے آئے۔ سوات میں مستقل سکونت اختیار کرکے مینگورہ شہر کے قریب لنڈیکس کے مقام پر مدرسہ دار القرآن میں تدریس کا آغاز کیا۔ شعبۂ تجوید سنبھالا اور تاحیات اسی شعبے سے منسلک رہے۔ آپ کے دینی جذبہ اور محنت و لگن کی بدولت آج دنیا کے مختلف ممالک میں آپ کے شاگرد کلام الٰہی کی خدمت اور نشر و اشاعت میں مصروف ہیں۔ مشہور تلامذہ میں قاری روح اللہ مدنی (اسلامک سنٹر امریکہ)، قاری عبدالصمد (بنگلہ دیش)، مولانا مفتی احمد ممتاز (کراچی)، قاری محمد عثمان (کراچی)، مولاناعبدالستار (بانئی بیت العلم کراچی)، قاری عبدالغفور (سوات)، قاری محمد ایوب (کراچی)، قاری خیرالحق (کراچی)، قاری فضل الرحیم (سوات)، قاری سلطان عمر (کراچی) اور مفتی فضل کریم (کراچی) کے علاوہ انگلینڈ، سعودی عرب، بنگلہ دیش، افغانستان، عرب امارات اور دیگر ممالک میں بے شمار شاگرد ہیں۔
آپ کا سیاسی تعلق جمعیت علمائے اسلام سے رہا اور 1988ء سے تاحیات مرکزی شوریٰ کے ممبر رہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی نائب امیر بھی رہ چکے ہیں۔ مفتی محمود صاحبؒ کے ساتھ خاصا نزدیکی تعلق رہا۔ حضرت مفتی محمودؒ جب بھی کراچی تشریف لے جاتے، تو آپ ہی ان کے میزبان ہوتے۔ آپ ہی کی گود میں سر رکھ کر مفتی محمود ؒ نے زندگی کی آخری سانس لے کر آخرت کے سفر کا آغاز کیا۔ ایم ایم اے کے دور میں 2002ء تا 2007ء حلقہ این اے 29 سوات سے ایم این اے رہے۔ تقریباً 23 سال علاقے میں علومِ قرآنیہ کا درس دیتے رہے۔ جولائی 2012ء میں آپ کو ہارٹ اٹیک ہوا ۔ بلآخر 68 سال کی عمر میں دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کر گئے۔