دینِ اسلام اللہ کا دین ہے۔ یہ سارے انبیا و رسل کا دین ہے کہ اس کی ابتدا اللہ تعالا نے حضرتِ آدم علیہ السلام سے کرائی اور یہ سارے انبیا و رسل کے ذریعے ارتقا و تکمیل کے مراحل سے ہوتا ہوا رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے کمال اور اتمام تک پہنچا۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔‘‘ اور یوں یہ دین ساری انسانیت کا دین بن گیا۔ پھر اس دین کے کچھ احکام ’’منصوص قطعی الثبوت‘‘ اور ’’قطعی الدلالہ‘‘ ہیں۔ ان احکام میں کسی تبدیل و تغیر کا کوئی تصور اور گنجائش نہیں جب تک کہ اس کی شروط وحدود وقیود موجود ہوں۔
مثلاً نما زفرض ہے، تو یہ کبھی ساقط نہیں ہوتا۔ الآنکہ کوئی بندہ خدا نخواستہ مجنون ہوگیا، مسلوب العقل ہوگیا، تو اب اس سے ساقط ہوا کہ شرط نہیں رہی جو وجوب کے لیے شرط تھی۔
یا کوئی بندہ پورا ایک دن رات بے ہوش رہا، تو شریعت پانچ نمازوں کو ایک یونٹ سمجھتا ہے، تو اس پر ان پانچ نمازوں کی قضا نہیں کہ وہ تو ایسا رہا جیسا کہ اس پر یہ وقت گزرا ہی نہیں، یعنی جب بے ہوشی پورے پانچ نمازوں کے اوقات کااحاطہ کرچکی تھی، یا پورا رمضان کا مہینا وہ بے ہوش رہا، تو یہ ایک یونٹ ہے۔ لہٰذا اس پر اس رمضان کی قضا نہیں۔ ہاں! شیخ فانی کا مسئلہ اور ہے۔
قارئین، اب حج ایک عبادت ہے جس کے وجوب کی اپنی شرائط ہیں۔ ادا کی اپنی شرائط ہیں اور صحت کی اپنی شرائط ہیں۔
اس کی شروطِ عامہ میں بعض وہ ہیں جو وجوب، صحت اور وجوب ادا ہر تین کی شروط ہیں، اور وہ ہیں اسلام اور عقل!
بعض وہ ہیں جو وجوب اور اجزا کی شروط ہیں۔ اجزا کے معنی ہیں کہ حج ہوجائے گا اور اس کے لیے کافی ہے، تو یہ ہیں:’’ بلوغ اور حریت کہ وہ غلام نہ ہو۔‘‘
بعض صرف وجوب کی شرط ہے اور وہ ہے ’’استطاعت۔‘‘
سو اسلام شرط ہے۔ یعنی یہ کہ کافر نہ مخاطب ہے حج کا اور نہ مکلف ہے۔ سو وہ اگر حج کرے بھی، تو وہ صحیح نہیں۔ معنی ایں کہ وہ بعد میں اگر مسلمان ہوجائے اور استطاعت رکھے، تواس پر حج فرض ہے۔
مالکیہ کے نزدیک اسلام، صحتِ حج کے لیے شرط ہے وجوب کے لیے نہیں، تو کافر پر واجب ہے لیکن کفر کی وجہ سے اس کا حج صحیح نہیں۔
اس طرح رہی بات آخرت میں مواخذہ کی، تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک کافر کا مواخذہ صرف کفر پر ہوگا۔ جمہور کہتے ہیں کہ کفر پر بھی ہوگا اور فرائض و واجبات ادا نہ کرنے اور محرمات کا ارتکاب کرنے پر بھی ہوگا۔ سو یہ ایک علمی و تحقیقی اختلاف ہے۔ نتیجہ تو دونوں کے نزدیک ’’خلود فی النار‘‘ ہے کہ ہمیشہ آگ میں رہے گا۔
دوسری شرط تکلیف اور بلوغ یعنی مکلف ہونے کا ہے۔ سو نابالغ اور مجنون پر حج واجب نہیں ہوتا۔ سو اگر انہوں نے اس حالت میں حج کیا بھی ہو، تو یہ حجۃ الاسلام نہیں۔ بالغ ہونے یا جنون ختم ہونے پر جب ان کی استطاعت ہو، تو ان پر حج فرض ہے۔
اب اگر ولی نے نابالغ سے حج کروایا، تو کیا یہ صحیح ہے؟ تو مالکیہ، شافعیہ اورحنابلہ کے نزدیک صحیح ہے، بایں معنی کہ ولی کو ثواب مل جائے گا، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ ایک عورت نے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے اپنا بچہ اٹھایا کہ اس کا حج ہے؟ توآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ہاں! اور تمہارے لیے اجر ہے۔‘‘
(احمدومسلم وابوداؤد والنسائی عن ابن عباسؓ)
پھر جب اس کا احرام بندھوایا ہے اور اس کی طرف سے نیت بھی کی ہے، تو پھر لازم ہے کہ اس سے سارے ا عمال کروائیں یعنی جو وہ کرسکتا ہو اور جو نہ کرسکتا ہو، تو ولی اس کی طرف سے کرے۔حتی کہ ممیز صبی کے جنایت پر فدیہ بھی آتا ہے لیکن وہ ولی کے مال سے ہوگا۔
امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ نابالغ ’’مرفوع القلم‘‘ یعنی غیر مکلف ہے۔ لہٰذا اس کا حج صحیح نہیں ہوتا کہ اس پر واجب نہیں ہوتا۔ کیوں کہ فاسد ہونے سے اس پر قضا لازم نہیں آتی۔
پھر یہ نماز کی طرح عبادتِ بدنی ہے، تو ولی اس کی طرف سے یہ نہیں کرسکتا اور نماز کے لیے بچوں کا جو حکم ہے، وہ دراصل ان کی تربیت اور ان کو عادت ڈالنے کے لیے ہے کہ وہ تو روزمرہ کا عمل ہے، جب کہ حج کا مسئلہ تو ایسا نہیں۔ البتہ اگر اس سے حج کروایا، تو تربیت کا ثواب ولی کو مل جائے گااور حدیثِ سابق میں بھی ولی کے لیے اجر کا ذکر ہے۔
٭استطاعت:۔ حنفی فقہا نے اس میں تین امور ذکر کیے ہیں۔ بدنی استطاعت، مالی استطاعت اور امنیت کہ ہلاک کا ظنِ غالب موجود نہ ہو ۔
مالکیہ کہتے ہیں کہ استطاعت کے معنی ہیں’’مکہ معظمہ پہنچنے کا امکان ہو۔ چاہے سوار ہو، چاہے پیادہ چل کے۔‘‘یعنی بدنی قوت ہو، زادِ راہ ہو کہ کھائے پیے اور سفر میں عافیت وسلامتی غالب ہو۔
شافعیہ فرماتے ہیں کہ استطاعت ’’بدنی، مالی اور امنیت‘‘ ہو۔ البتہ ان کے نزدیک استطاعت ’’مالی‘‘ اہم ہے۔
حنابلہ کے نزدیک وہی شروط ہیں جو حنفیہ کے نزدیک ہیں۔
البتہ خواتین کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ اس کے ساتھ سفر میں شوہر یا ذور حم محرم ہو۔ذو رحم محرم وہ مرد جس کے ساتھ اس کا نکاح مؤبداً نہیں ہوسکتا، نسب کی وجہ سے جیسا باپ، بھائی، بیٹا، چچا، ماموں، دادا، نانا، بھتیجا اور بھانجاہو۔
یہ بغیر محرم یا شوہر کے سفر کرنے کی حرمت عام سفر کے حوالے سے ہے، چاہے وہ حج کا سفر ہو یا غیر حج کا، کہ حدیث شریف میں ہے: ’’لا تسافر المرئۃثلاثۃ ایام الا ومعھا ذورحم محرم‘‘(متفق علیہ) یعنی کہ عورت تین دن کا سفر نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ ذورحم محرم ہو ۔ اور فرمایا:’’لاتحجن المرئۃ الا ومعہا زوج۔‘‘(دار قطنی) یعنی عورت حج نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ شوہر ہو۔
حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے جو شیخین نے نقل کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’ولا تسافر المرئۃ الا مع ذی محرم!‘‘ کہ عورت ذو محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ تو ایک شخص نے عرض کیا کہ میری بیوی حج کے لیے نکلی ہے اور مَیں نے اپنا نام لکھا ہے میدان فلاں غزوہ کے لیے؟ توآپؐ نے فرمایاجاؤ اس کے ساتھ حج کرو۔
اب حج کا سفر فریضہ کے لیے ہے، تو مالکیہ کے نزدیک عورت پر حج فرض ہے جب وہ معتمد رفقا کے ساتھ ہو، چاہے وہ صرف عورتیں ہوں، صرف مرد ہوں یا دونوں قسم کے ہوں۔ مالکیہ کے نزدیک محرم اگر رضاعی یا سسرال والا بھی ہو، تو صحیح ہے۔ جب کہ شافعیہ نے بھی عورت پر حج فرض قرار دیا ہے جب اس کے ساتھ ایک سے زیادہ معتمد عورتیں ہوں لیکن اگر وہ ایک عورت کے ساتھ بھی گئی، تو حج ہوجاتا ہے۔ البتہ گناہ بھی ہوجاتا ہے ۔
امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک بغیر شوہر یا ذو رحم کے عورت کا سفر قصر گناہ ہے لیکن وہ اگر حج فریضہ کے لیے بغیر محرم اور شوہر کے گئی اور حج ادا کیا، تو اس کا فریضہ ادا ہوگیا۔ البتہ اس نے بغیر محرم یا شوہر کے سفر کرکے گناہ کا ارتکاب کیا۔ سو اس سے اس کے ثواب میں کمی آئے گی اور وجہ اس کی یہ ہے کہ محرم یا شوہر کا ہونا شروطِ صحت میں سے ہے، یا کہ شروطِ وجوب الادا سے ہے۔ یعنی یہ شروط نفس وجوب میں سے نہیں۔ مستدل ہے آیت: ’’وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔‘‘ تو جب امن غالب ہو، تو نفس وجوب تو آجاتا ہے۔
ان تفاصیل اور اختلاف سے واضح ہوا کہ مسئلہ اختلافی ہے، تو اس میں وسعت آجاتی ہے اور احوال و ظروف میں ایک ہی امام کے مقلدین اپنے معتمد و مستند مفتی کے فتوا کے پیشِ نظر جبکہ اس نے کسی دوسرے امام کے قول پر فتوا دیا ہو، تو ان کے لیے یہ جائز ہے کہ احوال و ظروف کا تقاضا یہی ہے۔ حتی کہ اگر اجتہاد کی شروط ومقتضیات مفتی میں بالجملہ موجود ہوں اور اس نے احوال وظروف میں آئمہ اربعہ کے علاوہ دوسرے فقہا کے قول پر فتوا دیا، تو وہ بھی صحیح ہے۔ یہاں تو مستند آئمہ کے اقوال موجود ہیں۔
اب سعودی عربیہ حکومت تو مقلد امام احمد بن حنبلؒ کی ہے، لیکن بہت سارے مسائل میں ان کا گرینڈ مفتی یا دارالافتا کسی دوسرے امام کے قول پر بھی فتوا دے دیتا ہے، تو اب جب انہوں نے بغیر محرم کے عورت کے لیے حج کی اجازت دی ہے، وہ بھی اس حوالہ سے ہے۔ پہلے بھی ان کی پالیسی تھی کہ عورت بالخصوص جو چالیس سال سے زیادہ کی ہوتی ہے، اس کے لیے حج ویزا جاری کرتے ہیں، صرف شوہر یا محرم کی اجازت کو ضروری سمجھتے ہوئے ۔
یہاں امریکہ میں کسی مسجد سے وہ یہ اجازت نامہ لکھواتے یانوٹری پبلک سے، تو اس کو ویزا کا اجرا ہوجاتا، لیکن ایک مدت سے ہم پر سیاسیات کا اتنا غلبہ ہوچکا ہے کہ ہم ہر بات کو اسی زاویے سے دیکھتے ہیں، تو ایک غلغلہ برپا کردیتے ہیں یا پھر ہم مسئلہ تو سن چکے ہوتے ہیں، لیکن تفصیلات سے واقف نہیں ہوتے، تو ایک بار پھر غلغلہ۔
بھائی میرے! زندگی گزارنا ایک سنجیدہ کام ہے اور دین تو ایکسٹرا سنجیدہ ہے۔ اس میں فوراً جذباتی ہوکر فتوے جاری کرنا یہ بہت وبال والا کام ہے۔ گذشتہ سال کورونا کی وجہ سے محدود حج پر ایک شور شرابا،اب وہ تو اس سال فرو ہوگیا، تو اب اس مسئلے پر شورشرابا۔ خدا کرے کہ کورونا ختم ہو، تاکہ ریگولر انداز سے حج شروع ہو، ورنہ اگر اگلے سال خدانخواستہ ایسا رہا اور یہی مسئلہ بھی رہا، تو پھر کوئی بھی اعتراض نہیں کرے گا کہ وقت گزرنے سے ہمیں اس جذباتی مرض سے شفا مل جاتی ہے۔ یا تو ہمارے بعض مولوی صاحبان زیادہ جذباتی ہوجاتے ہیں، یا پھر نیم مولوی مسائل بتاتے ہیں۔
اور آج کا دور تو سوشل میڈیا کا ہے، تو اللہ کی پناہ!
…………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔