قمری سال کے ساتویں مہینے رجب کی فضلیت یہ ہے کہ اس ماہِ مبارک میں نبی کریمؐ کو معراج کے وقت فرضیت نماز کا حکم دیا گیا۔ صرف نماز ہی دینِ اسلام کا ایک ایسا عظیم رکن ہے جس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلا مقام پر معراج کی رات ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرمؐ تک نہیں پہنچا بلکہ اللہ تعالا نے فرضیت ِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب محمدؐ کو عطا فرمایا۔
نماز، ایمان کے بعد اسلام کا اہم ترین رُکن ہے۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید اور احادیثِ مبارکہؐ میں نماز کی مسلمہ اہمیت وفضیلت کو کثرت سے ذکر کیا گیا ہے۔ صرف قرآنِ پاک میں تقریباً سات سو مرتبہ، کہیں اشارتاًاور کہیں صراحتاً مختلف عنوانات سے نماز کا ذکر ملتا ہے جن میں نماز کو قائم کرنے پر بڑے بڑے وعدے اور ضائع کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
نماز کی ادائیگی کے بارے میں قرآنِ کریم کر سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 45 میں اللہ ربّ العزت فرماتے ہیں: ’’ جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھیے اور نماز قائم کیجیے۔ یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘
نماز میں اللہ تعالا نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لیے ضروری ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرمؐ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے، مگر دن میں چوری کرتا ہے، تو نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اس کی نماز عنقریب اُس کو اس برے کام سے روک دے گی۔ (مسند احمد) ‘‘
سورۂ البقرۃ کی آیت نمبر 153 میں ارشادِ باری تعالا ہے: ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے مدد چاہو۔ بے شک اللہ تعالا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
جب بھی کوئی پریشانی یا مصیبت سامنے آئے، تو مسلمان کو چاہیے کہ وہ اُس پر صبر کرے اور نماز کا خاص اہتمام کرکے اللہ تعالا سے تعلق قائم کرے۔ حضور اکرمؐ بھی ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہوتے تھے، جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا۔ آپؐ فوراً نماز کا اہتمام فرماتے۔ (ابو داود ومسند احمد)
نبی اکرمؐ پانچ فرض نماز وں کے علاوہ نمازِ تہجد، نمازِ اشراق، نمازِ چاشت، تحیۃ الوضو اور تحیۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے، اور پھر خاص خاص مواقع پر اپنے ربّ کے حضور توبہ و استغفار کے لیے نماز ہی کو ذریعہ بناتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا، تو مسجد تشریف لے جاتے۔ زلزلہ، آندھی یا طوفان حتیٰ کہ تیز ہوا بھی چلتی، تو مسجد تشریف لے جا کر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ فاقہ کی نوبت آتی یا کوئی دوسری پریشانی یا تکلیف پہنچتی، تو مسجد تشریف لے جاتے۔ سفر سے واپسی ہوتی، تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ نماز کا خاص اہتمام کریں اور اگر کوئی پریشانی یا مصیبت آئے، تو نماز کی ادائیگی اور صبر کے ذریعہ سے اللہ تعالا سے مدد مانگیں۔
سورۃ المائدہ کی آیت 12میں اللہ تعالا فرماتے ہیں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم رکھوگے اور زکواۃ دیتے رہوگے۔ ‘‘
یعنی نماز کی پابندی کرنے سے بندہ اللہ تعالا کے بہت زیادہ قریب ہوجاتاہے جیسا کہ نبی اکرم ؐنے فرمایا بندے کو اللہ تعالا کا سب سے زیادہ قرب سجدے کی حالت میں حاصل ہوتا ہے۔ ‘‘
قرآنِ کریم میں ہی ارشادِ ربانی ہے: ’’یقینا ان ایمان والوں نے فلاح (کامیابی) پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں…… اور جو اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں۔ یہی وہ وارث ہیں جو (جنت) الفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ (سورۃالمؤمنون)
ان آیات میں کامیابی پانے والے مومنین کی چھے صفات بیان کی گئی ہیں۔ پہلی صفت، خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنااور آخری صفت پھر نماز کی پوری طرح حفاظت کرنا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کا اللہ تعالا کے پاس کیا درجہ ہے اور کس قدر مہتم بالشان چیزہے کہ مومنین کی صفات کو نماز سے شروع کرکے نماز ہی پر ختم فرمایا گیا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالا نے ارشاد فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے۔ جنت بھی جنت الفردوس جو جنت کا اعلا حصہ ہے، جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوئی ہیں۔ غرض جنت الفردوس کو حاصل کرنے کے لیے نماز کا اہتمام بے حد ضروری ہے۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ’’بیشک انسان بڑے کچے دل والا بنایا گیا ہے جب اسے مصیبت پہنچتی ہے، تو ہڑبڑا اٹھتا ہے اور جب راحت ملتی ہے، تو بخل کرنے لگتا ہے، مگر وہ نمازی جو اپنی نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں،یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔‘‘ (سورۃ المعارج)
رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی، تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ سے دریافت کیا کہ اللہ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔‘‘ (بخاری ، مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرمؐ نے نماز کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگی، اس (کے پورے ایمان دار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔ اور جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لیے قیامت کے دن نہ نور ہوگا، نہ اس (کے پورے ایمان دار ہونے) کی کوئی دلیل ہوگی، نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا۔ اور وہ قیامت کے دن فرعون، قارون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔‘‘ (صحیح ابن حبان ، طبرانی، بیہقی، مسند احمد)
علامہ ابن قیم ؒنے کتاب الصلوٰۃ میں ذکر کیا ہے کہ ان کے ساتھ حشر ہونے کی وجـہ یہ ہے کہ اکثر ان ہی باتوں کی وجـہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی تھیں۔ پس اگر اس کی وجہ مال و دولت کی کثرت ہے، تو قارون کے ساتھ حشر ہوگا اور اگر حکومت و سلطنت ہے، تو فرعون کے ساتھ اور وزارت یا ملازمت ہے تو ہامان کے ساتھ، تجارت ہے تو ابی بن خلف کے ساتھ حشر ہوگا۔
جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے باوجود نماز نہیں پڑھتے یا کبھی کبھی پڑھ لیتے ہیں، وہ غور کریں کہ ان کا انجام کیا ہوگا؟ اللہ پاک اس برے انجام سے ہماری حفاظت فرمائے اور ہمیں خشوع و خضوع کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے ، آمین!
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔