کورونا وائرس مرض کی وجہ سے دنیا تھم سی گئی ہے۔ لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہوگئے ہیں۔ غریب طبقہ اور اوسط گھرانے کے لوگ کافی پریشانی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ملازمین کی تنخواہیں بھی کم کردی گئی ہیں۔ آمدنی کے ذرائع کم ہوگئے ہیں اور کتنے ہی لوگوں کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
ماہرینِ اقتصادیات کے مطابق اس وبائی مرض کے ختم ہونے پر بھی معیشت کو بحال ہونے کے لیے کئی مہینے درکار ہوں گے۔ ایسی صورت حال میں جہاں ہمیں اپنے اخراجات کم کرکے اپنے بچوں کے آئندہ مہینوں کے اخراجات کے لیے کچھ انتظامات کرنے ہیں، وہیں غریب اور مزدور طبقہ کا بھی خیال رکھنا ہے۔ جہاں ہمیں عید الفطر کی خریداری پر کفایت شعاری سے کام لینا ہے، وہیں یہ کوشش بھی کرنی ہے کہ ہمارا کوئی پڑوسی بھوکا نہ سوئے۔ ان دنوں مختلف تنظیمیں اور بے شمار لوگ مصیبت زدہ افراد کی مدد کرنے میں کوشاں ہیں۔ میری تمام مال داروں سے درخواست ہے کہ اس وقت لوگوں کی مدد کریں، خواہ ان کاتعلق کسی بھی مذہب سے ہو اور کسی بھی علاقہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہاں، قرآن وحدیث کی روشنی میں امتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ زکوٰۃ کی رقم صرف 8 مستحقین زکوٰۃ کو ہی دی جاسکتی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت نمبر 60 میں ذکر فرمایا ہے۔ آئیے، مختصر طور پر زکوٰۃ کے مسائل سمجھیں:
٭ زکوٰۃ کے معنی اور حکم:۔ زکوٰۃ کے معنی پاکیزگی، بڑھوتری اور برکت کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اُن کے مال سے زکوٰۃ لو، تاکہ اُن کو پاک کرے اور بابرکت کرے اُس کی وجہ سے، اور دعا دے اُن کو۔‘‘ (سورۃ التوبہ103)
شرعی اصطلاح میں مال کے اُس خاص حصہ کو زکوٰۃ کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فقیروں ومحتاجوں کو دے کر انہیں مالک بنا دیا جائے۔ قرآن کریم کی آیات اور حضور اکرمؐ کے ارشادات سے زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے۔ جوشخص زکوٰۃ کے فرض ہونے کا انکار کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ زکوٰۃ کی فرضیت ابتدا اسلام میں ہی مکہ مکرمہ کے اندر نازل ہوچکی تھی، جیساکہ امام تفسیرابنِ کثیرؒنے ذکر کیا ہے۔ البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں زکوٰۃ کے لیے کوئی خاص نصاب یا خاص مقدار مقرر نہ تھی، بلکہ جو کچھ ایک مسلمان کی اپنی ضرورت سے بچ جاتا، اُس کا ایک بڑا حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا تھا۔ نصاب کا تعین اور مقدارِ زکوٰۃ کا بیان مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد ہوا۔
٭ زکوٰۃ اور رمضان:۔ زکوٰۃ کا رمضان میں ہی نکالنا ضروری نہیں بلکہ اگر ہمیں صاحبِ نصاب بننے کی تاریخ معلوم ہے، تو ایک سال گذرنے پر فوراً زکوٰۃ کی ادائیگی کردینی چاہیے۔ خواہ کوئی سا بھی مہینا ہو۔ مگر لوگ اپنے صاحبِ نصاب بننے کی تاریخ سے عموماً ناواقف ہوتے ہیں اور رمضان میں ایک نیکی کا اجر 70 گنا ملتا ہے، تو اس لیے لوگ رمضان میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں اور پھر ہر سال رمضان میں ہی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ زکوٰۃ ایک سال مکمل ہونے سے قبل بھی نکالی جاسکتی ہے اور اگر کسی وجہ سے کچھ تاخیر ہوجائے، تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، لیکن قصداً تاخیر کرنا صحیح نہیں۔
٭ زکوٰۃ کے فوائد:۔ زکوٰۃ ایک عبادت ہے۔ اللہ کا حکم ہے، زکوٰۃ نکالنے سے ہمیں کوئی منفعت حاصل ہویا نہ ہو، کوئی فائدہ ملے یا نہ ملے، اللہ کے حکم کی اطاعت بذاتِ خود مقصود ہے۔ اصل مقصد تو زکوٰۃ کا یہ ہے، لیکن اللہ کا کرم ہے جو کوئی بندہ زکوٰۃ نکالتا ہے، تو اللہ اُس کو دنیاوی فوائد بھی عطا فرماتے ہیں۔ اُن فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی باقی مال میں برکت، اضافہ اور پاکیزگی کا سبب بنتی ہے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے اور زکوٰۃ اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ 276) حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی بندہ زکوٰۃ نکالتا ہے، تو فرشتے اُس کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کررہا ہے، اس کو اور زیادہ عطا فرما، اور اے اللہ جس شخص نے اپنے مال کو روک کر رکھ رہا ہے، اور زکوٰۃ ادا نہیں کررہا ہے، تو اے اللہ اس کے مال پر ہلاکت ڈالے۔ نیز حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : کوئی صدقہ کسی مال میں کمی نہیں کرتا ہے۔ (ترمذی)
٭ زکوٰۃ کس پر فرض ہے:۔ اُس مسلمان عاقل بالغ پر زکوٰۃ فرض ہے جو صاحبِ نصاب ہو۔ نصاب کا اپنی ضرورتوں سے زیادہ اور قرض سے بچا ہوا ہونا شرط ہے، نیز مال پر ایک سال گذرنا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ جس کے پاس نصاب سے کم مال ہے، یا مال تو نصاب کے برابر ہے، لیکن وہ قرض دار بھی ہے یا مال سال بھر تک باقی نہیں رہا ، تو ایسے شخص پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ 88 گرام سونا یا 216 گرام چاندی یا 216گرام چاندی کی قیمت کے برابر نقد روپیہ یا سامانِ تجارت وغیرہ جس شخص کے پاس موجود ہے، اور اُس پر ایک سال گزر گیا ہے، تو اُس کو صاحب ِنصاب کہا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ اگر کسی شخص کے پاس صرف سونا ہے، تو وزن یعنی 88 گرام سونے پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اگر کسی شخص کے پاس صرف چاندی ہے، تو وزن یعنی 216 گرام چاندی پر زکوٰۃ واجب ہوگی، لیکن اگر سونا، چاندی اور نقدی مشترک ہے، یا صرف نقدی ہے تو 216 گرام چاندی کی قیمت کے برابر پیسا ایک سال سے زیادہ موجود ہونے پر زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔ مالِ تجارت میں زکوٰۃ کے وجوب کے لیے دو مزید شرطیں ہیں۔ بیچنے کی نیت سے خریدا تھا اور اب تک بیچنے کی نیت باقی ہے۔ گھر کے سازوسان حتی کہ گاڑی وغیرہ پر کوئی زکوٰۃ واجب نہیں۔
٭ زکوٰۃ کتنی ادا کرنی ہے:۔ اوپر ذکر کیے گئے نصاب پر صرف ڈھائی فیصد (2.5) فی صد زکوٰۃ ادا کرنی ضروری ہے۔
٭ سامانِ تجارت میں کیا کیا داخل ہے:۔ مالِ تجارت میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کو آدمی نے بیچنے کی غرض سے خریدا ہو۔ لہٰذا جو لوگ انوسٹمنٹ کی غرض سے پلاٹ خریدلیتے ہیں، اور شروع ہی سے یہ نیت ہوتی ہے کہ جب اچھے پیسے ملیں گے، تو اس کو فروخت کرکے اس سے نفع کمائیں گے، تو اس پلاٹ کی مالیت پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ لیکن پلاٹ اِس نیت سے خریدا کہ اگر موقع ہوا تو اس پر رہائش کے لیے مکان بنوالیں گے، یا موقع ہوگا تو اس کو کرائے پر چڑھادیں گے، یا کبھی موقع ہوگا، تو اس کو فروخت کردیں گے، یعنی کوئی واضح نیت نہیں ہے بلکہ ویسے ہی خرید لیا ہے، تو اس صورت میں اس پلاٹ کی قیمت پر زکوٰۃ واجب نہیں۔
٭کس دن کی مالیت معتبر ہوگی:۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے اُس دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا جس دن آپ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے اپنے مال کا حساب لگا رہے ہیں۔ پرانے زیوارت فروخت کریں، تو وہ کتنے میں فروخت ہوں گے (جو نئے زیوارت کے مقابلہ میں عموماً 20 فیصد کم میں فروخت ہوتے ہیں) اُسی قیمت کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کرنا ہوگا۔
٭ سونے یا چاندی کے زیورات پر زکوٰۃ:۔ خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور علما و فقہا و محدثین قرآن و سنت کی روشنی میں عورتوں کے سونے یا چاندی کے استعمالی زیور پر وجوب زکوٰۃ کے قائل ہیں۔ اگر وہ زیور نصاب کے مساوی یا زائد ہو، اور اس پر ایک سال بھی گذر گیا ہو۔
٭ ہر ہر روپے پر سال کا گذرنا ضروری نہیں:۔ ایک سال مال پر گزر جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر سال ہر ہر روپے پر مستقل سال گذرے، یعنی گذشتہ سال رمضان میں اگر آپ 5 لاکھ روپے کے مالک تھے، جس پر ایک سال بھی گذر گیا تھا۔ زکوٰۃ ادا کردی گئی تھی۔ اِس سال رمضان تک جو رقم آتی جاتی رہی اُس کا کوئی اعتبار نہیں۔ بس اِس رمضان میں دیکھ لیں کہ آپ کے پاس اب کتنی رقم ضروریات سے بچ گئی ہے، اور اُس رقم پر زکوٰۃ ادا کردیں۔ مثلاً اِس رمضان میں 6 لاکھ روپے آپ کے پاس ضروریات سے بچ گئے ہیں، تو 6 لاکھ کا 2.5 فی صد زکوٰۃ ادا کردیں۔
٭ مستحقین زکوٰۃ یعنی زکوٰۃ کس کو ادا کریں:۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت نمبر 60 میں 8 مستحقین زکوٰۃ کا ذکر کیا ہے:
٭ فقیر یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا مال واسباب ہے، لیکن نصاب کے برابر نہیں۔
٭ مسکین یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔
٭ جو کارکن زکاۃ وصول کرنے پر متعین ہیں۔
٭ جن کی دلجوئی کرنا منظور ہو۔
٭ وہ غلام جس کی آزادی مطلوب ہو۔
٭ قرض دار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو اور اُس کے پاس قرض سے بچا ہوا بقدر نصاب کوئی مال نہ ہو۔
٭ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔
٭ مسافر جو حالتِ سفر میں تنگ دست ہوگیا ہو۔ غرض یہ کہ وہ حضرات جو صاحبِ نصاب نہیں ہیں، اُن کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
٭ جن لوگوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے:۔ اُس شخص کو جس کے پاس ضروریاتِ ِاصلیہ سے زائد بقدرِ نصاب مال موجود ہو۔ سےّد حضرات اور بنی ہاشم۔ بنی ہاشم سے حضرت حارث ؓ بن عبدالمطلب،حضرت جعفرؓ، حضرت عقیلؓ، حضرت عباسؓ اور حضرت علی ؓ کی اولادمراد ہیں۔ اپنے ماں، باپ، دادا ، دادی، نانا ، نانی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ اپنے بیٹے، بیٹی، پوتا ، پوتی، نواسہ، نواسی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ شوہر اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے شوہر کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی۔ کافرکو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔ (نوٹ:۔ بھائی، بہن، بھتیجا، بھتیجی، بھانجا، بھانجی، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں، ساس، سسر، داماد وغیرہ میں سے جو حاجتمند اور مستحق ِزکوٰۃ ہوں، انہیں زکوٰۃ دینے میں دوہرا ثواب ملتا ہے، ایک ثواب زکوٰۃ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ کسی تحفہ یا ہدیہ کی شکل میں بھی اِن مذکورہ رشتہ داروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے)
٭ زکوٰۃ نہ نکالنے پر وعید:۔ سورۃ التوبہ آیت نمبر 34، 35 میں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے، جو اپنے مال کی کما حقہ زکوٰۃ نہیں نکالتے۔ اُن کے لیے بڑے سخت الفاظ میں خبر دی ہے۔ چناں چہ فرمایا کہ جو لوگ اپنے پاس سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اُس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، تو (اے نبیؐ) آپ اُن کو ایک دردناک عذاب کی خبر دے دیجیے، یعنی جو لوگ اپنا پیسا، اپنا روپیا، اپنا سونا چاندی جمع کرتے جا رہے ہیں اور اُن کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، اُن پر اللہ نے جو فریضہ عائد کیا ہے، اُس کو ادا نہیں کرتے، اُن کو یہ وعید سنادیجیے کہ ایک دردناک عذاب اُن کا انتظار کر رہا ہے۔ پھر دوسری آیت میں اُس دردناک عذاب کی تفصیل ذکر فرمائی کہ یہ دردناک عذاب اُس دن ہوگا جس دن سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور پھر اُس آدمی کی پیشانی، اُس کے پہلو اور اُس کی پشت کو داغا جائے گااور اس سے یہ کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، آج تم اس خزانے کا مزہ چکھو، جو تم اپنے لیے جمع کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس انجامِ بد سے محفوظ فرمائے، آمین! نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جب مال میں زکوٰۃ کی رقم شامل ہوجائے، یعنی پوری زکوٰۃ نہیں نکالی بلکہ کچھ زکوٰۃ نکالی اور کچھ رہ گئی، تو وہ مال انسان کے لیے تباہی اور ہلاکت کا سبب ہے۔ لہٰذا اس بات کا اہتمام کرو کہ ایک ایک پائی کا صحیح حساب کرکے زکوٰۃ ادا کرو۔
٭ زکوٰۃ سے متعلق چند متفرق مسائل:۔ زکوٰۃ جس کو دی جائے، اُسے یہ بتانا کہ یہ مالِ زکوٰۃ ہے ضروری نہیں بلکہ کسی غریب کے بچوں کو عیدی یا کسی اور نام سے دے دینا بھی کافی ہے۔ دینی مدارس میں غریب طالب علموں کے لیے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ زکوٰۃ کی رقم کو مساجد، ہسپتال، یتیم خانے اور مسافر خانے کی تعمیر میں صرف کرنا جائز نہیں۔اگر عورت بھی صاحبِ نصاب ہے، تو اُس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔ البتہ اگر شوہر خود ہی عورت کی طرف سے بھی زکوٰۃ کی ادائیگی اپنے مال سے کردے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔