تقریباً ایک سو سالہ خلافت علی منہاج النبوہ کے اختتام پر دورِ ملوکیت کا آغاز ہوا۔ خلافت کے بنیادی اجزا حکومت اور سیاست سے نکال دیے گئے۔ اگرچہ اسلامی قوانین اور دیگر ضابطے نافذ رہے اور معاشرے کی بنیادی ساخت بھی دینِ اسلام پر قائم رہی، لیکن حقیقت میں وہ روح جو خلافت کی شکل میں دینِ اسلام کے اندر موجود تھی، باقی نہ رہی۔ ظاہری ڈھانچا کچھ عرصے تک قائم رہا، لیکن آخرِکار وہ بھی رفتہ رفتہ بوسیدہ اور گھن زدہ ہو کر گر پڑا۔ اجتماعی زندگی صرف دنیاوی امور و معاملات اور حکمرانوں کے صوابدیدی اختیارات پر منحصر ہو کر رہ گئی۔ دین، بحیثیتِ نظامِ زندگی اور ضابطۂ حیات متروک ہو گیا اور مذہب کے نام پر چند انفرادی رسوم و عبادات، نذر و نیاز اور ذکر و اذکار کا ایک الگ طریقۂ کار وجود میں آگیا۔ اسلام کو ماننے والے مطلق العنان بادشاہ اپنی من مانی کرتے رہے۔ اپنے ذاتی خواہشات و مفادات کے مطابق حکم احکام جاری کرتے رہے اور یوں اس سیکولرازم کا آغاز ہوا، جس کو عام معنوں میں لادینیت کہتے ہیں اور جس کو موجودہ دور میں عالمی طاغوتی قوتوں نے اپنے دین کا بنیادی جز قرار دیا ہے۔
موجودہ عالمی طاغوتی نظام تین بنیادی اجزا پر مشتمل ہے: سیکولرازم، نیشنلزم اور کیپٹلزم یعنی لادینیت ، قومیت اور نظامِ سرمایہ داری۔ مذہبی رسومات کو انفرادی زندگی تک محدود کیا گیا اور انفرادی زندگی میں فرد کو محدود معنوں میں چند عائلی قوانین نکاح و طلاق اور دیگر مذہبی رسوم و عبادات کی اجازت دی گئی اور دین کو اجتماعی زندگی سے خارج کیا گیا۔ یہ وہ بنیادی مرض اور اصل انحراف ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا فتنہ و فساد اور مشکلات و مسائل سے دوچار ہوئی۔ کیوں کہ خالقِ ارض و سما نے دنیا میں انسانی فلاح و کامیابی اور پُرامن زندگی کے قیام کے لیے مکمل ضابطۂ حیات قرآن عظیم الشان کی شکل میں نازل فرمایا تھا اور اس کتابِ مقدس کی عملی تشریح اور قیام و نفاذ کے لیے اپنا آخری رسول محمدؐ مبعوث فرمایا تھا۔ اللہ کے رسول محمد مصطفی نے اپنے تئیس سالہ دورِ نبوت میں اس دینِ اسلام کو بتدریج قائم کرکے ایک مدنی ریاست کی شکل میں انسانیت کو ایک عملی نمونہ پیش کیا تھا۔ مدنی ریاست دس سال تک محمد مصطفی کی قیادت میں ابتدائی طور پر وجود میں آئی۔ اس اسلامی ریاست کے سربراہ اللہ کے رسولؐ تھے۔ ان پر وحی کی شکل میں اللہ کی طرف سے احکام و ہدایات نازل ہوتی تھیں اور ایک اسلامی معاشرے کی ضروریات کے مطابق قوانین نازل ہوتے تھے، جس کو فوراً عملاً نافذ کیا جاتا تھا۔ ہجرت کے فوراً بعد آپؐ نے مسجد تعمیر کی۔ نماز قائم کی اور جمعہ و جماعت کے قیام کے ذریعے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کیا۔ تعلیم و تربیت کا ادارہ صفہ کی شکل میں قائم کیا۔ عدل و انصاف کے قیام کے لیے مسجد نبوی میں عدالت قائم کی۔ حکومتی اور سرکاری امور و معاملات کے لیے بھی مسجدِ نبویؐ کو مرکز قرار دے دیا۔ یعنی حکومت اور اجتماعی نظام کے قیام کے لیے مسجد کو مرکز قرار دیا۔ سربراہِ حکومت اگرچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا برگزیدہ پیغمبر تھا۔ اس کی حیثیت عوام و خواص کے لیے ایک ایسے رہنما اور رہبر کی تھی، جس کے حکم اور فرمان سے سرتابی کفرو انکار کے مترادف تھی، لیکن اس کے باوجود احکامِ وحی کے علاوہ جو امور و معاملات بھی سامنے آتے، ان کو آپ اہل الرائے صحابہ اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشورے سے طے کرتے تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ آپؐ کی رائے سے اختلا ف کیا گیا اور آپؐ نے اختلاف رائے کو قبول فرمایا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ آپؐ سربراہِ مملکت ہوتے ہوئے بھی عام لوگوں جیسے زندگی گزارتے تھے۔ آپؐ کے دروازے عوام کے لیے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ آپؐ نے اپنے لیے کوئی امتیازی انداز و اطوار اختیار نہیں کیے۔ بسا اوقات آپؐ اپنے صحابہ کے درمیان ایسے گھل مل کر بیٹھتے تھے کہ آنے والے اجنبی کو دریافت کرنا پڑتا تھا کہ تم میں محمدؐ کون ہیں؟ صحابہؓ آپ کی طرف اشارہ کرکے اجنبی کو آپؐ کا تعارف کراتے تھے۔ آپؐ نے اپنے ساتھیوں کو اپنی تعظیم اور احترام کے لیے کھڑے ہونے سے منع فرمایا۔ آپ کی زندگی معاشرے کے ایک عام فرد سے بھی زیادہ سادہ اور غریبانہ تھی۔ آپ کا گھر بھی دوسرے لوگوں کی طرح جھونپڑی نما اور کچا گھاس پھونس کا بنا ہوا تھا۔ آپؐ کی ضروریات کے لیے ابتدائی دور میں کوئی انتظام نہیں تھا، جس کی وجہ سے آپؐ زیادہ تر بھوک اور فاقے سے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے خیرات و صدقات کے مال کو تقسیم فرمایا، اور جب سب کچھ ختم ہوا، تو آپؐ کھانے کے لیے گھر تشریف لائے۔ جب آپؐ نے کھانا طلب فرمایا، تو جواب دیا گیا کہ گھر میں تو کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا، اچھا تو پھر میرا روزہ ہے۔ آپؐ اپنے کپڑوں میں خود پیوند لگاتے تھے۔ آپؐ اپنے جوتے خود مرمت کرتے تھے۔ سفر کے دوران میں آپؐ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کام کی تقسیم میں خود حصہ لیتے تھے اور کسی بھی شکل میں اپنے لیے کوئی امتیازی انداز پسند نہیں کرتے تھے۔ حالاں کہ آپؐ کے ساتھی آپؐ کا اتنا احترام اور ادب کرتے تھے، جتنا کسی بادشاہ کا بھی احترام نہیں ہوتا تھا۔
صلحِ حدیبیہ کے موقعہ پر مشرکین مکہ کے نمائندے نے جب آپ کے ساتھ بات چیت کے بعد مشرکین مکہ کو رپورٹ سنائی، تو اس کے الفاظ یادگار ہیں کہ ’’لوگو! مَیں نے محمدؐ کے ساتھیوں کا ان کے ساتھ ادب وا حترام اور جان نثاری کا ایسا نقشہ دیکھا، جو مَیں نے قیصر و کسریٰ کے درباروں میں ان کے خدام اور غلاموں کا بھی نہیں دیکھا۔ محمدؐ وضو فرماتے ہیں، تو ان کے ساتھی ان کے وضو کا استعمال شدہ پانی زمین پر گرنے نہیں دیتے اور ہر ایک اس کو اپنے چہرے اور بدن پر ملتا ہے۔ ایسے شخص سے مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘
مدنی ریاست کے سربراہ محمد مصطفی اپنے حجرے میں ایک کھردری چٹائی پر لیٹے آرام فرما رہے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ ملاقات کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ باریابی کی اجازت مل کر حجرے میں حاضر ہوتے ہیں۔ آپ کے بدن مبارک پر چٹائی کے نشانات دیکھ کر آب دیدہ ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ قیصر و کسریٰ تو دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی گزار یں اور اللہ کے رسولؐ ایسی مفلسانہ زندگی گزاریں ۔ اے اللہ کے رسولؐ! اگر آپ اجازت دیں، تو ہم آپ کے لیے ایک نرم بچھونا بنا کر لائیں، تاکہ آپ اس پر آرام و استراحت فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا، اے عمرؓ! مجھے دنیا کے عیش و عشرت اور آرام و استراحت سے کیا غرض؟ میری حیثیت تو ایک مسافر کی طرح ہے،جو اپنی منزل کی طرف سفر کے دوران میں تھک کر ایک درخت کے سائے میں تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتا ہے اور پھر اپنی منزل کی طرف دوبارہ گامزن ہوتا ہے۔
آپؐ کے بعد آپؐ کے خلیفہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے ڈھائی سالہ دورِ خلافت بھی آپؐ کی سنت اور طریقے کے مطابق ہے۔ خلافت کی بیعت ہوتی ہے۔ آپ خلیفۃ المسلمین مقرر ہوتے ہیں۔ دوسرے دن کپڑوں کے تھان کندھے پر رکھے بازار جارہے ہیں کہ حضرت عمرؓ راستے میں ملتے ہیں۔ پوچھتے ہیں، اے خلیفۃ المسلمین یہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ بیوی بچوں کے لیے روزی کمانے بازار جا رہا ہوں۔ وہ عرض کرتے ہیں کہ پھر مسلم امت اور خلافت کے امور و معاملات کا کیا ہوگا؟ وہ فرماتے ہیں، پھر میں کیا کروں؟ عمرؓ عرض کرتے ہیں کہ چلیے، میرے ساتھ مشورہ کرکے آپ کے لیے معاش کا انتظام کرتے ہیں۔ اور پھر مشورے سے خلیفہ وقت کے لیے ایک عام آدمی کی ضروریات کے مطابق بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح امیر المومنین عمر فاروق ؓ کا دس سالہ دورِ خلافت ہے۔
قارئین، مقصود یہ بتا نا ہے کہ اسلام دین ہے، جوتمام اجتماعی اور انفرادی امو ر و معاملات کے لیے قوانین اور ضابطے طے کرتا ہے۔ یہ اسلام محض انفرادی مذہب نہیں کہ اجتماعی معاملات تو ایک آدمی یا آدمیوں کی ایک جماعت طے کریں، اور انفرادی طور پر چند رسوم و عبادات اور محدود معنوں میں صرف نکاح و طلاق اور عائلی قوانین تک محدود ہو۔ یہ مملکتِ خداداد جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا، جس کے بارے میں واضح، بر ملا اور علی الاعلان یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا۔ کہ ہم ایک الگ عقیدہ، نظریہ، نظامِ زندگی اور تہذیب و ثقافت رکھتے ہیں۔ اس لیے ہم ہندو اکثریت کے غلبے اور دباؤ سے آزاد اپنے لیے ایک الگ خود مختار ریاست چاہتے ہیں اور اسی مؤقف کے لیے ہزاروں لاکھوں انسانوں نے جان، مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں پیش کیں۔ یہ مملکتِ خداداد دنیا کے جغرافیہ پر وجود میں آیا، لیکن دو سو سالہ انگریزوں کی غلامی نے ہمارے مقتدر طبقے کو ذہنی فکری طور پر اتنا متاثر کیا تھا کہ وہ انگریزوں اور عالمی طاغوتی طاقتوں کے گھڑے ہوئے تثلیثی دین سیکولر ازم، نیشنلزم اور کیپٹلزم کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ اور اپنا دین، ایمان اور عقیدہ و نظریہ فراموش کر گئے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ان بد بختوں نے ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ!‘‘ کا نعرہ بدل کر یہ مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان تو ہندوؤں کی معاشی بالادستی اور غلبے سے نجات کے لیے قائم کیا گیا۔ جب کہ آج تک وہ معاشی مسئلہ بھی حل نہ ہو سکا اور ہم نے پاکستان کے شہیدوں کی قربانیوں سے بے وفائی کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنے عہد اور وعدوں کو توڑا۔
اتنی بڑی عظیم نعمت کی ناشکری کی اور نتیجے میں بنی اسرائیل کی طرح 72 سال سے وادی تیہ میں بھٹک رہے ہیں۔ دنیا میں بھی خوار و ذلیل اور آخرت کی رسوائی اور عذاب ہمارا انتظار کر رہی ہے۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔