انسانی معاشرہ ہر دور میں راہِ حق اور جادۂ مستقیم سے منحرف اور گمراہ ہوتا رہا ہے، لیکن اصلاح و ہدایت کے لیے اللہ رب العالمین نے بھی داعیانِ حق اور اپنے برگزیدہ پیغمبروں کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلے جب یہ انسانی معاشرہ ایک بار پھر راہِ ہدایت سے منحرف ہو کر گمراہ ہوگیا، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور حد درجہ مہربانی کا اظہار فرماتے ہوئے اصلاح و ہدایت کے لیے اپنا وہ آخری پیغمبرمحمد مصطفیؐ مبعوث کیا۔ ان پر وہ جامع اور مکمل ہدایت قرآن عظیم الشان کی شکل میں نازل فرمائی، جس کے بعد نہ کوئی نبی آنے والا ہے، اور نہ کوئی کتاب ہی نازل ہوگی۔ رہتی دنیا تک اس آخری رسولؐ کا اسوۂ حسنہ انسانی ہدایت و رہنمائی کے لیے ماڈل قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ ہر بات ہر چیز اور ہر نظریے اور عقیدے کو باطل قرار دے کر رد کر دیا گیا۔ دینِ اسلام کی تکمیل کو اپنی نعمت قرار دے کر اس کے مطابق انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ اس منحرف و گمراہ اور ہر قسم کے اخلاقی، روحانی امراض میں مبتلا معاشرے کی اصلاح و ہدایت کے لیے جو آخری رسول محمد مصطفی ؐ مبعوث کیے گئے، انہوں نے اس معاشرے کی اصلاح اور کایا پلٹ کے لیے جوا نداز، طریق ِکار اور ترجیحات قائم کیں۔ ان کے اندر اصلاح و انقلاب کے لیے پُرخلوص جدوجہد کرنے والے افراد اور جماعتوں کے لیے ایک مکمل، قابلِ عمل اور نہایت مؤثر حکمتِ عملی اور نمونہ موجود ہے۔ آپ سے جب کہا گیا کہ اُٹھو اور لوگوں کو اپنے خطرناک انجام سے ڈراؤ، اور اپنے رب یعنی حاکم حقیقی کی کبریائی، الوہیت اور حاکمیت کو قائم کرو۔ دوسرے حکم میں فرمایا گیا کہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے آغاز کرو۔ تو اس بات میں تو کوئی کلام اور شک نہیں کہ آپ کی اپنی ذاتی زندگی بھی اپنی دعوت اور اصلاح و انقلاب کے نعرے کے مطابق تھی۔ جب آپ کو ساحر ، جادوگر، کاہن اور کاذب کہا گیا ،تو آپ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے نازل کردہ الفاظ میں ان کو جواب دیا کہ کیا مَیں نے چالیس سال تک بچپن سے لے کر پختہ عمر تک تمہارے درمیان زندگی نہیں گزاری؟ چالیس سال تک تو تم مجھے صادق و امین اور اپنے معاشرے کا صالح ترین آدمی سمجھتے رہے۔ آج جب مَیں نے تمہارے آبائی دین شرک کے خلاف دعوت حق کا آغاز کیا، تو تم نے میرے خلاف الزامات و التہامات کا طوفان کھڑا کر دیا۔ کیا تمہارے اندر کچھ عقل بھی ہے؟
اس سے معلوم ہوا کہ دعوتِ اصلاح و انقلاب کی کامیابی کا زیادہ تر دار و مدار اپنے شخصی و ذاتی کردار کا مرہون منت ہوتا ہے۔ اس کے بعد جب آپ نے اندازہ لگایاکہ قوم کی گمراہی اور اخلاقی و روحانی امراض کا بنیادی سبب اور وجوہات کیا ہیں، تو آپؐ نے وحیِ الٰہی کی روشنی میں تمام امراض کے علاج کے لیے ایک جامع، مکمل اور ہمہ جہت کلمہ جامعہ شفا کے لیے تجویز کیا۔ اور وہ یہ کہ لوگو، تمام ارباب الٰہیہ سے انکار کرکے ایک اِلہ اللہ کو اپنا رب اور حاکم تسلیم کرو، تو دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی سے سرفراز ہو جاؤگے۔
امراض اور بیماریاں بہت تھیں۔ قومی انتشار و افتراق، ظلم و طغیان، لکڑی اور پتھر کے بے جان بتوں کی پوجا۔ قتل و غارت، ڈاکہ زنی اور اپنی جگر گوشوں کو زندہ دفن کرنا، غلاموں کے ساتھ ظلم و شقاوت کا رویہ غرض یہ کہ کوئی عیب اور برائی ایسی نہیں تھی جو اس قوم میں موجود نہیں تھی، لیکن انسانی ہدایت اور فلاح و کامرانی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے جو حکیم حاذق بھیجا گیا تھا، اس نے اصل اور بنیادی بیماری کی تشخیص کی۔ ضمنی، فروعی اور اصل مرض کے نتیجے میں رونما ہونے والی بیماریوں کو نظر انداز کیا۔ نہ شراب خوری اور جوئے بازی کی بات کی۔ نہ نماز پڑھنے اور روز ے رکھنے کی تلقین کی اور نہ کسی اور مسئلے اور معاملے کی طرف توجہ کی۔ اپنی تمام تر توجہ مرکوز کی تو صرف اس بات پر کہ لوگوں کا نقطۂ نظر تبدیل ہو۔ ذہنی، فکری رویہ تبدیل ہو جائے۔ ذہنی فکری رویہ جب تبدیل ہوا، تو اصلاح و انقلاب کا آغاز ہوا۔ لوگوں نے جب اپنے اصل آقا و مالک کو پہچان لیا، تو دوسرے آقا اور معبود خود بخود متروک ہوگئے۔ ذہنی فکری تبدیلی سے جو انقلاب شروع ہوا۔ اس کی مؤثریت، کارفرمائی اور اثرو رسوخ کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ جب مکہ مکرمہ میں چالیس افراد نے دینِ اسلام قبول کیا، تو پورے مکہ شہر میں ایک کہرام برپا ہوگیا۔ ہر گھر اور مکان سے آہ و فریاد اور قائدِ انقلاب کے لیے کوسنے اور بد دعائیں سنائی دینے لگیں۔ گمراہی اور آبائی مشرکانہ دین کے علمبردار اور طاغوت کے نمائندے چیخ اٹھے کہ محمدؐ نے تو ہمارے پورے معاشرے کو پراگندہ کرکے رکھ دیا۔ ہمارے گھر میں نفاق پیدا کیا۔ باپ اور بیٹے میں جدائی ڈال دی۔ ماں اور بیٹی کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔ ہمارے خداؤں کو جھوٹا ٹھہرایا گیا۔ ہمارے بزرگوں اور بڑوں کو کافر قرار دیا اور اس شخص نے تو ہمیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ ذہنی فکری تبدیلی کی خوشبو معاشرے میں پھیلتی رہی۔ سعید روحیں اور پاک صاف ذہن رکھنے والے افراد متاثر ہوتے رہے اور قافلۂ حق کی تعداد روز بروز بڑھتی رہی، لیکن نتیجے میں غم، غصہ اور اشتعال بھی روزافزوں بڑھتا رہا۔ تشدد اور مظالم بھی بڑھتے رہے۔ بے کس، مجبور و لاچار عورت سمیہؓ ایمان لانے اور ایک اللہ کو اپنا رب تسلیم کرنے کے جرم میں بے دردی کے ساتھ شہید کی گئی۔ عمارؓ اور یاسرؓ پر اتنا شدید اور بے رحمانہ تشدد کیا گیا کہ ایک مرتبہ جب قائدِ انقلابؐ کا ان پر گزر ہوا، ان کو تعزیت و تکلیف میں مبتلا دیکھ کر غمگین ہوگئے، لیکن کہا تو صرف یہ کہا کہ اصبرو یا آل یاسر فان موعد کم الجنۃ (ترجمہ) ’’اے آلِ یاسر ثابت قدم رہو اپنے مؤقف پر ڈٹے رہو۔ تمہارے ساتھ تو جنت کا وعدہ ہے۔‘‘
اور یہ وعدہ کسی ایرے غیرے کا نہیں اس ذاتِ اقدس کا ہے جواس تمام کائنات کا خالق و مالک اور حاکمِ حقیقی ہے۔ ساتھیوں کو حقائق اور حق کی قربانیوں کی تاریخ کی روشنی میں حق کے راستے پر گامزن رکھا۔ جھوٹے، پُرفریب اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے وعدے نہیں کیے۔ ایک مرتبہ حضرت خباب بن الارتؓ آپ کی خدمتِ اقدس میں اس حال میں پیش ہوئے کہ جبر و تشدد سے بے حال آگ کے انگاروں پر لٹائے گئے، زخموں اور رستے ہوئے خون کے ساتھ نڈھال، غمگین، دل برداشتہ اور فریاد کناں آپ ؐ بیت اللہ کے سائے میں آرام فرما رہے تھے۔ خباب ؓ حاضر ہوئے۔ فریاد کی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ مجھ میں تو مزید برداشت کا یارا نہیں۔ آپ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کیوں نہیں مانگتے کہ ہمیں اس تشدد اور ظلم سے نجات ملے۔ آپؐ اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ جذبات سے چہرہ مبارک سرخ ہوا اور حضرت خبابؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ خبابؓ یہ تو صبرو برداشت اور استقامت کا راستہ ہے۔ حق کے اس راستے پر چلنے والوں کو زمین میں زندہ دفن کیا گیا۔ ان کے سروں پر آرے چلا کر ان کے جسموں کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا۔ کیا تم اس وقت تک صبر نہیں کر سکتے جب یہ دین غالب ہو جائے گا اور اس کے ذریعے دنیا اتنی پُرامن ہو جائے گی کہ ایک تنہا عورت صنعا سے حضر موت تک بے خوف اور بے کھٹکے اکیلے سفر کرے گی، اور اس کو خدا کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوگا۔
ذہنی فکری کایا پلٹ کے ساتھ لوگوں کو منتشر اور منفرد نہیں چھوڑا گیا۔ ان کو ایک مرکز دارِ ارقم میں جمع کیا گیا۔ ان کی تربیت کی گئی۔ ان میں نظم و ضبط قائم کیا گیا۔ ان کو انقلاب کے راستے میں جدوجہد کے دوران میں پیش آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں سے آگاہ کیا گیا۔ ہر ایمان لانے والے اور اسلام قبول کرنے والوں کو ذہنی طور پر اس بات کے لیے تیار کیاگیا کہ گھر بار عزیز و اقارب اور مولد وطن چھوڑنا پڑے گا۔ جان و مال کی قربانی دینی ہوگی۔ جب ہجرتِ حبشہ کے لیے کہا گیا، تو ایک دن حضرت عمرؓ جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے، اپنی ایک رشتہ دار خاتون کے گھر گئے۔ دیکھا تو وہ اپنا سامان باندھ رہی تھی۔ عمر غور اور توجہ سے دیکھتے رہے۔ پھر اس کو مخاطب کرکے کہا کہ اے ام فلاں، تم گھر بار چھوڑ کر جارہی ہو؟ اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ ہاں، اے عمر! تم لوگوں نے مکے میں ہمارے لیے زندگی گزارنا مشکل کردیا ۔ اس لیے میں اس شہر اور اس کے باسیوں کو چھوڑ کر جار ہی ہوں۔ عمر پر اس مکالمے کا گہرا اثر ہوا اور شاید ان کے اسلام قبول کرنے میں یہ واقعہ بھی اثر انداز ہواہو۔
یہ تھی وہ کایا پلٹ کہ جب لوگوں کا ذہنی فکری رویہ تبدیل ہوا، تو ان کے ذہنوں میں پھر نہ دنیا کے مال کی کوئی قدروقیمت رہی نہ ملک و وطن کی اور نہ جان و عزت کی۔ اور وہ صرف اور صرف اپنے مہربان رب کی خوشنودی اور رضا کے طلب کے لیے اس عظیم الشان انقلاب کے ہر اول دستے میں جان و مال کی قربانیاں پیش کرتے رہے۔ صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرتے رہے۔ اپنے آبائی وطن مکے کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت کی۔ وہاں غربت، لاچاری اور بھوک پیاس کی شدت برداشت کی۔ قربانیوں، شہادتوں اور عزیمتوں کا یہ سفر صفہ کے چبوترے سے لے کر بدر، احد، خندق، تبوک اور حنین کے میدانوں میں فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑنے تک جاری رہا، تو ان قربانیوں کے نتیجے میں حق کا بول بالا ہوا۔ باطل سرنگوں ہوا اور دنیا امن و آتشی اور خیر و برکت کے مبارک نظام سے آراستہ ہوئی، لیکن ترتیب اور ترجیحات کی فہرست وہی رہی ہے کہ تطہیرِ افکار، تعمیرِ کردار، دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت، نظم و جماعت، ہجرت و جہاد اور آخر میں انقلاب، امامت، فاسقین فاجرین کی جگہ صالحین، دیانت دار و امانت دار افراد کی قیادت۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔