یہ عجیب ملک ہے کہ یہاں کوئی کام بھی معمول کے مطابق نہیں ہوتا، بلکہ ہر وقت غیر معمولی صورت حال برپا ہوتی ہے۔ اب اسی بات کو لیجئے کہ یکم محرم الحرام سے دس محرم الحرام تک ملکی انتظامیہ ’’سانحۂ کربلا‘‘ کی یاد منانے کے سلسلے میں امن و امان کے انتظامات میں مصروف رہی، اور اس کام کے علاوہ ان دس دنوں میں پوری انتظامیہ کسی اور کام پر توجہ نہ دے سکی۔ کیوں کہ واقعۂ کربلا واقعی حساس معاملہ ہے اور ماضی کے واقعات اور حادثات کے تناظر میں انتظامیہ کو امن و امان برقرار رکھنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لیے غیر معمولی انتظامات کرنا پڑتے ہیں۔ لیکن تقسیمِ ہند سے بھی پہلے انگریزوں کے دورِ حکومت سے دونوں فرقوں کے درمیان یہ تناؤ، تعصب اور عدم برداشت کی کیفیت چلی آرہی ہے۔ دونوں فرقوں میں اب تک ہم آہنگی اور خوشگوار تعلقات کا قیام عملًا ممکن نہ ہوسکا۔ شیعہ اور سنی دونوں فرقے دینِ اسلام کے بنیادی عقائد اور اعمال پر متفق ہیں۔ فروعات اور ضمنی مسائل میں اختلاف ہے۔ انسانی فطرت کے مطابق یہ فروعی اختلاف ہر جگہ اور ہر بات میں پایا جاتا ہے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ جب آپ اللہ، اس کے رسولوں، کتابوں اور یومِ آخرت اور اللہ کے دربار میں پیش ہو کر حساب کتاب پر یقین رکھتے ہیں، جب آپ فرائض کی ادائیگی پر متفق ہیں، جب آپ حلال و حرام کے دینی احکامات کو ماننے پر متفق ہیں، آپ کا قبلہ ایک ہے اور تمام غیر مسلم دنیا آپ کو مسلمان تسلیم کرتی ہے، وہ دشمنی میں آپ کے درمیان شیعہ و سنی کی تفریق نہیں کرتی، بلکہ یہ شیعہ و سنی فرقوں کو تو انہوں نے آپ کے درمیان نفاق و عداوت ڈالنے کے لیے ہائی لائٹ کیا ہے، تو پھر انتہائی افسوس اور رنج کا مقام ہے کہ بنیادی امور میں متفقات کو نظر انداز کرکے فروعی اور ضمنی مسائل کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ اتنا تعصب اور عدم برداشت کا رویہ اختیار کیا جائے۔ کیا تاریخ میں سانحۂ کربلا کا واقعہ اور خانوادۂ رسولؐ کے ساتھ ظلم و شقاوت کا حادثہ کوئی منفرد اور یکتا واقعہ ہے؟ کیا قرآنِ عظیم الشان میں ہمیں اصحاب الاخدود کا دردناک سانحہ نہیں ملتا کہ کس طرح ظالموں اور بدبختوں نے اللہ پر ایمان لانے کے جرم میں اہلِ ایمان کو بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالا اور ان کو آگ میں جلتا ہوا دیکھنے کے لیے عوام کا ایک جم غفیر موجود اور خوشی و مسرت کے نعرے لگاتا رہا۔ کیا اس سے پہلے اللہ کے برگزیدہ رسولوں کو ناحق اور ظالمانہ انداز میں قتل نہیں کیا گیا؟ جب یہ سب واقعات اور سانحات ہماری تاریخ میں موجود ہیں، تو سانحۂ کربلا کے ظلمِ عظیم کو بھی انہی واقعات کی طرح دیکھا جائے۔ اس کو دین کی بنیاد بنا کر ہر سال فتنہ و فساد کا خطرہ بنانے سے احتراز کرنا اولیٰ ہے۔ کیوں کہ تیرہ سو سال بعد دینِ اسلام کے ماننے والے جن حالات، مظالم اور دشمنوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں، ان حالات میں مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی، اتحاد و اتفاق اور یکجہتی انتہائی ضروری ہے۔ آج ان دونوں فرقوں کے انتہائی محترم سرکردہ علما اور رہنماؤں کی حکمت و فراست سے عاری حکمتِ عملی اور دشمنوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے دونوں فرقے عالمی سطح پر ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ کیا مملکتِ اسلامی جمہوری ایران کے رہنماؤں اور علما پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ اس فرقہ وارانہ تعصب اور دشمنی کی حد تک بغض و عناد کو کنڑول کریں اور ’’اپنا مسلک چھوڑو نہیں اور دوسروں کو چھیڑو نہیں‘‘ کی حکمت عملی اختیار کرکے دشمنانِ اسلام کی چالوں اور سازشوں کو ناکام بنائیں؟ کیا سنی اتحاد کے سرخیل سعودی رہنماؤں، علما اور عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے اہلِ فکر و نظر سے یہ امید و توقع کرنا غلط ہے کہ تیرہ سو سال سے قائم یہ فرقہ بندی عالمِ اسلام کو کتنا نقصان پہنچا چکی ہے؟ اور اب وہ وقت نہیں آیا کہ ہم ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرکے بنیادی امور و معاملات کو اہمیت دے کر ضمنی اور فروعی باتوں کو نظر انداز کریں؟ اگر چار پانچ بلکہ اس سے بھی زیادہ فقہی مسالک کے اختلافات کو برداشت کیا جا سکتا ہے، تو شیعہ مسلک کو بھی ایک فرقہ اور مسلک سمجھ کر اہم اور بنیادی مصالح کے لیے رواداری اور برداشت کا رویہ اپنایا جائے۔ ایسا ہو نا چاہیے۔ دونوں اطراف کے بااثر افراد و طبقات کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، لیکن عملی زندگی میں جب اہم اس کام کا جائزہ لیتے ہیں، تو اس میں ہمیں بہت زیادہ مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی نظر آتی ہیں اور حقیقت میں یہ مشکلات اور رکاوٹیں چوں کہ مفادات اور ذاتی اغراض پر مبنی ہیں، اس وجہ سے ان کو ختم کرنا نہایت مشکل اور دشوار کام ہے۔
قارئین، قرآنی الفاظ میں انسانی تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ انسانیت کے شروع میں انسانی معاشرہ ملتِ واحدہ پر مشتمل تھا۔ تمام لوگ ایک دین، عقیدے اور نظریے پر قائم تھے، لیکن اس کے بعد لوگوں نے اپنے اپنے اغراض اور ذاتی مقاصد و مفادات اور ایک دوسرے پر برتری کے لیے مختلف نظریے اور عقائد تشکیل دے کر نئے نئے فرقے بنا لیے اور یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوا کہ لوگوں کے پاس واضح اور بین دلائل موجود تھے۔ اس سے یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ انسان کے اندر ذاتی خواہشات پر مبنی ایک دوسرے سے ممتاز اور برتر ہونے کا ایک بت موجود ہے اور یہ اندرونی بت انسان کا سب سے بڑا معبود اور حاکم ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے انسان کو متنبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ کیا تم نے خواہشات نفس کو الہ بنا رکھا ہے؟ حالاں کہ اصل معبود اور حاکمِ حقیقی تو اللہ رب العالمین ہے، جس کے سامنے انسان کو اپنے تمام نفسانی خواہشات سے دست بردار ہونا چاہے۔
اگر ہم ذرا گہری نظر سے کلمۂ توحید پر نظر ڈالیں، تو اس کلمے میں ہمیں سب سے پہلے ’’لا‘‘ یعنی ’’نہیں‘‘ کا لفظ نظر آتا ہے کہ ’’لاالہ‘‘ کوئی معبود، حاکم اور رب نہیں۔ اس کے بعد ’’الا اللہ‘‘ آتا ہے کہ اصل حاکمِ حقیقی، رب اور معبود اللہ کی ذات ہے۔ انکار کا لفظ پہلے اس لیے لایا گیا کہ اللہ کے سوا تمام الہ اور معبودانِ باطل موجود تھے، اور اس میں سب سے اہم اور بنیادی معبود نفسِ انسانی میں موجود خواہشات تھیں، جن پر قابو پانے، ان کو مسترد کرنے اور ٹھکرانے کا انسان سے مطالبہ کیا گیا۔ تم اس وقت تک حقیقی معنوں میں صاحب ایمان نہیں ہو سکتے جب تک اپنے نفس کی تمام خواہشات و داعیات سے دست بردار نہیں ہوتے۔
دورِ نبویؐ میں ایک دفعہ یہ واقعہ سامنے آیا کہ کسی بات پر خفا ہو کر اور اشتعال میں آکر حضر تِ ابوذر غفاریؓ جیسے قدیم الاسلام اور سابقون الاولون میں شامل صحابیِ رسولؐ نے حضرت سیدنا بلالؓ کو سخت سست کہا اور اے کالی کے بچے یا ابن السوداء کہا۔ حضرت بلال ؓ اپنی بے توقیری اور اس طعن سے نہایت غمگین و دلبرداشتہ ہو کر ابولقاسم ؑ کے پاس شکایت لے کے پہنچے اور فریاد کی۔ آپ ؐ نے حضرت ابوذرؓ کو بلایا۔ جب وہ حاضر ہوئے، تو آپؐ نے نہایت کبیدہ خاطر ہو کر حضرت ابوذرؓ سے فرمایا: ’’ابوذر، تمہارے اندر سے جاہلیت ابھی تک نہیں نکلی؟‘‘ یعنی تمہارے اندر جاہلیت ابھی تک موجود ہے؟ حضرت ابوذرؓ یہ سن کر اتنے شرمندہ اور نادم ہوئے اور خواہش کرنے لگے کہ زمین پھٹے اور میں اس کے اندر سما جاؤں۔ اس کے بعد اپنی حرکت پر عملی ندامت و شرمندگی کے اظہار کے لیے حضرتِ بلال ؓ سے مطالبہ کیا کہ آپ میرے سر پر اپنا پاؤں رکھ دیں۔ حضرتِ بلال ؓ نے بہتیرا کہا کہ میں نے معاف کیا اور میں آپ کے سر پر اپنا پاؤں نہیں رکھوں گا، لیکن حضرت ابوذر ؓ نے ان کو بااصرار مجبور کیا۔ انہوں نے زمین پر اپنا سر رکھ دیا اور حضرتِ بلال ؓ نے ان کے سر پر اپنا پاؤں رکھ دیا۔ یوں حضرت ابوذرؓ کے سر سے جاہلیت کا غرور و تکبر نکل گیا۔
انسانی تاریخ میں جتنے نئے مذاہب، طریقے اور نت نئے عقیدے ایجاد و اختراع کیے گئے۔ وہ سب انہی نفسانی خواہشات پر مبنی ایک دوسرے پر برتری، اپنے لیے خاص مراعات اور ممتاز حیثیت کی طلب کی وجہ سے وجود میں آئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی وہ ہدایت یعنی صراطِ مستقیم جو اس نے اپنے انبیائے کرام کے ذریعے انسان کی دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی کے لیے بھیجی تھی، اس کو انسانوں نے اپنی خواہشات کے راستے میں رکاوٹ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ ہدایت اور صراطِ مستقیم کو چھوڑ کر ٹیڑھے میڑھے راستوں اور پگڈنڈیوں پر چلنے لگے۔ دنیا کو بھی اپنے لیے جنگ و جدل اور میدانِ قتال بنا کر جہنم زار بنا دیا اور آخرت کو بھی دائمی خسران اور ہلاکت و بربادی کا گھر بنا کر رکھ دیا۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا، یہ اپنی حماقت کی وجہ سے اپنے فرقے اور گروہ کی باطل خواہشات میں مگن اور شاداں و فرحاں ہے۔ وہ عقل و شعور جس کی بنیاد پر یہ اشرف المخلوقات اور احسن الخلائق ہے، اس نے پسِ پشت ڈال کر نظر انداز کردیا۔ یقینا انسان ظالم اور جاہل ہے۔ اپنے حال کے بارے میں لاپروا اور انجام کے بارے میں غافل ہے۔
بقولِ اقبالؔ
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔