حضرتِ امام بخاریؒ کی کنیت ابو عبداللہ اور نام نامی محمد ہے۔ والد کا نام اسماعیل ہے۔ سلسلۂ نسب اس طرح ہے: ’’محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزیہ۔‘‘
بردزیہ مذہباً مجوسی (آتش پرست) تھے۔ مجوسیت پر ہی ان کی وفات ہوئی۔ ان کے صاحب زادہ مغیرہ اس خاندان کے پہلے فرد ہیں جو امیر بخاری یمان جعفی کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
حضرت امام بخاریؒ 13شوال نماز جمعہ کے بعد 196ہجری ازبکستان کے تاریخی شہر بخارا میں پیدا ہوئے۔ آپ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ پرورش والدہ ماجدہ نے کی۔ امام بخاری ؒ کی بچپن میں نظر چلی گئی تھی، اور آپ نابینا ہوگئے تھے۔ آپ کی والدہ کو اس سے بہت ہی صدمہ ہوا اور وہ اللہ کے حضور میں رو رو کر دعا کرتی تھیں کہ یا اللہ! میرے بچے کی نظر لوٹا دے۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمارہے ہیں کہ اے خاتون، اللہ نے تیرے دعا قبول کی اور تیرے بچے کی نظر لوٹا دی ہے۔ جب آپ بیدار ہوئیں، تو دیکھا کہ واقعی اُن کی نظر لوٹ آئی ہے۔
امام بخاری ؒ کی تحصیلِ علم کا زمانہ بچپن ہی سے شروع ہوتا ہے۔ ابتدائی تعلیم میں حدیث کے ساتھ ساتھ علمِ فقہ کی طرف توجہ کی، اور امام وکیع ؒ اورحضرت عبداللہ بن مبارکؒ جیسے اساتذۂ فن کی تصنیفات کا مطالعہ کیا، اور ان کی کتابوں کو اَزبر کرلیا۔ اپنے وطن مالوف ہی میں امام ابوحفص کبیر ؒ سے جامع سفیان کا سماع کیا۔ ایک دفعہ امام ابو حفص ؒ نے فرمایا کہ یہ جوان نہایت ہی عقل مند ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ آگے چل کر اس کی بڑی شہرت اور چرچا ہوگا۔ مشائخِ بخارا سے تقریباً چھے سال استفادہ کرلینے کے بعد 210ہجری میں جب کہ آپ کی عمر 15یا 16سال کے قریب تھی، آپ اپنی والدہ محترمہ اور بھائی احمد کے ہمراہ مکہ مکرمہ چلے گئے۔ حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ والدہ اور بھائی واپس بخارا آگئے اور امام بخاری ؒوہیں حصولِ علم میں مشغول ہوگئے۔ مکہ مکرمہ میں دو سال قیام فرمایا اور یہاں کے مشہور محدثین مثلاً ابو عبدالرحمان المقریؒ (جو امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد تھے) حسان بن حسان بصریؒ ابو ولید احمد بن ازرقبیؒ اور امام حمیدیؒ سے استفادہ کیا۔
مکہ مکرمہ کے اربابِ علم سے تحصیلِ کمال کے بعد 212ہجری میں جب کہ آپ کی عمر مبارک اٹھارا سال تھی، آپ مدینہ منورہ روانہ ہوئے، یہاں آپ نے عبدالعزیز بن عبداللہ اُویسیؒ، ایوب بن سلیمان بن بلالؒ، اسماعیل بن ابی اویس ؒ اور ان کے علاوہ دیگر محدثین سے استفادہ کیا۔ حرمین شریفین کے علاوہ طلبِ حدیث کے سلسلہ میں آپ شام، ایران، عراق، مصر، جزیرہ ممالک اسلامیہ تشریف لے گئے اور وہاں کے محدثین سے احادیثِ مبارکہ حاصل کیں۔ خود آپ کا اپنا بیان ہے: ’’مَیں شام، مصر اور جزیرہ دو مرتبہ گیا۔ بصرہ چار مرتبہ گیا۔ حجاز مقدس میں چھے سال مقیم رہا اور کوفہ و بغداد میں محدثین کے ساتھ مجھے کتنی مرتبہ جانا پڑا۔ یہ تو میں شمار بھی نہیں کرسکتا۔‘‘
امام بخاریؒ کی زندگی میں بعض ایسی شائستہ خصوصیات پائی جاتی ہیں جو بہت کم لوگوں میں دیکھنے میں آتی ہیں۔ چناں چہ آپ کی طبیعت سخت درجہ غیور، خوددار اور بے تکلف تھی۔ آپ علم کی عظمت پر کسی لمحہ بھی آنچ نہ آنے دیتے تھے اور علم کی بے وقعتی کسی صورت بھی آپ کو برداشت نہیں تھی۔
حضرت امام بخاریؒ کو میراث میں اپنے والد اسماعیل ؒ سے غیر معمولی دولت ملی تھی۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ مال کو مضاربت کی صورت میں لگادیا تھا۔ تاکہ خود تجارت کے جھمیلوں سے فارغ الذہن ہوکر سکون کے ساتھ دین کی خدمت کرسکیں۔
حضرت امام بخاریؒ دولت و ثروت کی بہتات کے باوجود نہایت سادہ اور فقیرانہ زندگی گزارتے تھے۔ ایک دن آپؒ بخارا سے نکل کر سمر قند کے ایک گاؤں ’’خرتنگ‘‘ چلے گئے۔ یہاں آپ کے رشتہ دار رہتے تھے۔ آپ اُنہی کے پا س رہ پڑے۔ عبدالقدوس کہتے کہ ایک رات میں نے سنا کہ امام تہجد سے فارغ ہوکر یہ دعا مانگ رہے ہیں: ’’الٰہی، زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود مجھ پر تنگ ہوگئی ہے۔ بس اب تو تُو مجھے اپنے پاس بلالے۔ ایک مہینا بھی نہ گزر نے پایا تھا کہ آپ کا انتقال ہوگیا۔‘‘
وراق بخاری کا کہنا ہے کہ میں نے غالب بن جبریل سے سنا جن کے یہاں امام بخاریؒ خرتنگ میں قیام پذیر تھے، وہ کہہ رہے تھے کہ امام بخاری ؒ کو ہمارے یہاں ٹھہرے ہوئے چند دن ہی گزرے تھے کہ آپ بیمار ہوگئے۔ اسی اثنا میں اہلِ ثمر قند نے ایک قاصد بھیجا کہ آپ ہمارے یہاں چلے آئیں۔ امام بخاریؒ اُن کے بلانے پر جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ موزے پہن لیے۔ عمامہ باندھ لیا۔ سواری پر سوار ہونے کے لیے تقریباً بیس قدم چلے ہوں گے ( میں ان کا بازو پکڑے ہوئے تھا) کہ فرمایا مجھے چھوڑ دو۔ میں بہت کمزور ہوگیا ہوں۔ ہم نے چھوڑ دیا۔ آپ نے کچھ دعائیں پڑھیں اور لیٹ گئے۔ اسی میں آپ کا انتقال ہوگیا۔ وفات ہوجانے کے بعد آپ کے جسمِ اقدس سے بہت زیادہ پسینہ نکلا۔ امام بخاریؒ نے ہمیں وصیت کی تھی کہ مجھے تین کپڑوں میں کفن دینا جن میں عمامہ اور قمیص نہ ہو۔ چناں چہ ہم نے ایسے ہی کیا۔ جب ہم نے آپ کو کفنانے اور نماز پڑھنے کے بعد قبر میں اُتارا، تو قبر سے نہایت ہی بہترین خوشبو مشک جیسی اُٹھی اور کئی دنوں تک اُٹھتی رہی۔ لوگ آپ کی قبر سے مٹی لے جانے لگے، یہاں تک ہمیں قبر کی حفاظت کے لیے اس پر ایک جالی دار لکڑی رکھنی پڑی۔
علامہ ابن حجرزؒ رقم طراز ہیں کہ ’’عبدالواحد بن آدم طواویسی فرماتے ہیں، مَیں نے ایک رات خواب میں حضورؐ کی زیارت کی۔ آپ کے ساتھ صحابہ کرام کی ایک جماعت تھی اور آپؐ ایک جگہ کھڑے تھے۔ مَیں نے سلام کیا اور پوچھا کہ حضرت یہاں کیوں کھڑے ہیں؟ فرمایا: ’’محمد بن اسماعیل کا انتظار!‘‘ مجھے جب امام کے انتقال کی خبر ملی، تو میں نے حساب لگایا، وہ وہی وقت تھا جس وقت میں نے حضورؐ کو خواب میں دیکھا تھا۔ یہ واقعہ ہفتہ کی شب کا ہے۔ یہی عید الفطر کی شب تھی اور 256ہجری تھا۔ امام بخاریؒ کی عمر تیرہ دن کم باسٹھ سال ہوئی۔  (بحوالہ: ’’امام بخاریؒ کی عدالت میں‘‘ از انوارِ خورشید)

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔