حج ایک ایسی عبادت ہے جوزندگی میں ایک مرتبہ صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ اگرچہ ایک سے زیادہ مرتبہ حج کی ادائیگی کی ترغیب حضورِ اکرمؐ کی تعلیمات میں واضح طور پر ملتی ہیں۔ چناں چہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: پے درپے حج وعمرے کیا کرو۔ بے شک یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر یعنی غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (ابن ماجـہ)
انسان کو اپنی زندگی میں بار بار حج کرنے کی توفیق عام طور پر نہیں ملتی۔ حج کے مسائل کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ حج کی ادائیگی کے بغیر ان کا سمجھنا بظاہر مشکل ہے۔ نیز پہلے سے خاطر خواہ تیاری نہ ہونے کی وجہ سے بھی عام حاجی اپنے حج کی ادائیگی میں غلطیاں کرتا ہے۔ بعض غلطیاں حج کے صحیح نہ ہونے یا دم کے واجب ہونے کا سبب بنتی ہیں۔ لہٰذا عازمین حج کو چاہیے کہ وہ حجاجِ کرام سے سرزد ہونے والی مندرجہ ذیل غلطیوں کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں، تاکہ حج کی ادائیگی صحیح طریقہ پر ہو اور ان کا حج ’’حجِ مبرور‘‘ بنے جس کا بدلہ جنت الفردوس ہے، جیسا کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے، جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حجِ مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔ (بخاری ومسلم)
٭ حج کے اخراجات میں حرام مال کا استعمال کرنا:۔ حج اور عمرہ کے لیے صرف پاکیزہ حلال کمائی میں سے خرچ کرنا چاہیے۔ کیوں کہ رسولؐ اللہ کاارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ پاکیزہ ہے اور پاکیزہ چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: جب آدمی حج کے لیے رزقِ حلال لے کر نکلتا ہے اور اپنا پاؤں سواری کے رکاب میں رکھ کر (یعنی سواری پر سوار ہوکر) لبیک کہتا ہے، تو اس کو آسمان سے پکارنے والے جواب دیتے ہیں، تیری لبیک قبول ہو اور رحمت الٰہی تجھ پر نازل ہو، تیرا سفر خرچ حلال اور تیری سواری حلال اور تیرا حج مقبول ہے اور تو گناہوں سے پاک ہے۔ اور جب آدمی حرام کمائی کے ساتھ حج کے لیے نکلتا ہے اور سواری کے رکاب پر پاؤں رکھ کر لبیک کہتا ہے، تو آسمان کے منادی جواب دیتے ہیں، تیری لبیک قبول نہیں، نہ تجھ پر اللہ کی رحمت ہو، تیرا سفرِ خرچ حرام، تیری کمائی حرام اور تیرا حج غیر مقبو ل ہے۔ (طبرانی)
ہمیشہ ہمیں حلال رزق پر ہی اکتفا کرنا چاہیے، خواہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔ حرام رزق کے تمام وسائل سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ جیساکہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو، کیوں کہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی)
٭ حج کے سفر سے قبل حج کے مسائل کو دریافت نہ کرنا:۔ عازمینِ حج کو چاہیے کہ وہ حج کی ادائیگی پر جانے سے قبل علمائے کرام سے رجوع فرماکر مسائلِ حج کو اچھی طرح ذہن نشین کریں۔
٭ بعض لوگوں نے مشہور کررکھا ہے کہ اگر کسی نے عمرہ کیا، تو اس پر حج فرض ہوگیا۔ یہ غلط ہے۔ اگر وہ صاحبِ استطاعت نہیں ہے، یعنی اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ وہ حج ادا کرسکے، تو اس پر عمرہ کی ادائیگی کی وجہ سے حج فرض نہیں ہوتا۔ اگرچہ وہ عمرہ حج کے مہینوں میں ادا کیا جائے۔ پھر بھی عمرہ کی ادائیگی کی وجہ سے حج فرض نہیں ہوگا۔
٭ اپنی طرف سے حج کیے بغیر دوسرے کی جانب سے حج بدل کرنا۔
٭ سفرِ حج کے دوران میں نمازوں کا اہتمام نہ کرنا۔ یاد رکھیں کہ اگر غفلت کی وجـہ سے ایک وقت کی نماز بھی فوت ہوگئی، تو مسجدِ حرام کی سو نفلوں سے بھی اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ نیز جو لوگ نماز کا اہتمام نہیں کرتے، وہ حج کی برکات سے محروم رہتے ہیں اور ان کا حج مقبول نہیں ہوتا۔
٭ حج کے اس عظیم سفر کے دوران لڑنا، جھگڑنا حتی کہ کسی پر غصہ ہونا بھی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، حج کے چند مہینے مقرر ہیں۔ اس لیے جو شخص ان میں حج کو لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل میلاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑا کرنے سے بچتا رہے۔(سورۃ البقرہ آیت ۱۹۷)
نیز نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسق وفجور سے بچا، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔ (بخاری ومسلم)
٭ بڑی غلطیوں میں سے ایک بغیر احرام کے میقات سے آگے بڑھ جانا ہے۔ لہٰذا ہوائی جہاز پر سوار ہونے والے حضرات ایرپورٹ پر ہی احرام باندھ لیں، یا احرام لے کر ہوائی جہاز میں سوار ہوجائیں اور میقات سے پہلے پہلے باندھ لیں۔
٭ بعض حضرات شروع ہی سے اضطباع (یعنی داہنـی بغل کے نیچے سے احرام کی چادر نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا) کرتے ہیں، یہ غلط ہے بلکہ صرف طواف کے دوران اضطباع کرنا سنت ہے۔ لہٰذا دونوں بازوں ڈھانک کر ہی نماز پڑھیں۔
٭ بعض حجاج کرام حجرِ اسود کا بوسہ لینے کے لیے دیگر حضرات کو تکلیف دیتے ہیں۔ حالاں کہ بوسہ لینا صرف سنت ہے، جب کہ دوسروں کو تکلیف پہنچانا حرام ہے۔ رسول اکرمؐ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خاص طور سے تاکید فرمائی تھی کہ دیکھو، تم قوی آدمی ہو حجرِ اسود کے استلام کے وقت لوگوں سے مزاحمت نہ کرنا، اگر جگہ ہو تو بوسہ لینا ورنہ صرف استقبال کرکے تکبیر وتہلیل کہہ لینا۔
٭ حجرِ اسود کا استلام کرنے کے علاوہ طواف کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی طرف چہرا یا پشت کرنا غلط ہے۔ لہٰذا طواف کے وقت آپ کا چہرہ سامنے ہو اور کعبہ آپ کے بائیں جانب ہو۔ اگر طواف کے دوران میں آپ کا چہرا کعبہ کی طرف ہوجائے، تو اس پر دم لازم نہیں ہوگا، لیکن قصداً ایسانہ کریں۔
٭ بعض حضرات حجرِ اسود کے علاوہ خانہ کعبہ کے دیگر حصہ کا بھی بوسہ لیتے ہیں، اور چھوتے ہیں جو غلط ہے، بلکہ بوسہ صرف حجرِ اسود یا خانہ کعبہ کے دروازے کا لیا جاتا ہے۔ رکنِ یمانی اور حجرِ اسود کے علاوہ کعبہ کے کسی حصہ کو بھی طواف کے دوران میں نہ چھوئیں۔ البتہ طواف اور نماز سے فراغت کے بعد ملتزم پر جاکر اس سے چمٹ کر دعائیں مانگنا حضورِ اکرمؐ سے ثابت ہے۔ ٭ رُکنِ یمانی کا بوسہ لینا یا دور سے اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرنا غلط ہے، بلکہ طواف کے دوران میں اس کو صرف ہاتھ لگانے کا حکم ہے۔ وہ بھی اگر سہولت سے کسی کو تکلیف دیے بغیر ممکن ہو۔
٭ بعض حضرات مقامِ ابراہیم کا استلام کرتے ہیں، اور اس کا بوسہ لیتے ہیں۔ علامہ نووی ؒ نے ایضاح اور ابن حجر مکی ؒنے توضیح میں فرمایا ہے کہ مقامِ ابراہیم کا نہ استلام کیا جائے، اور نہ اس کا بوسہ لیا جائے۔ یہ مکروہ ہے۔
٭ بعض حضرات طواف کے دوران میں حجرِ اسود کے سامنے دیر تک کھڑے رہتے ہیں۔ ایسا کرنا غلط ہے۔ کیوں کہ اس سے طواف کرنے والوں کو پریشانی ہوتی ہے۔ صرف تھوڑا رُک کر اشارہ کریں اور ’’بسم اللہ، اللہ اکبر‘‘ کہہ کر آگے بڑھ جائیں۔
٭ بعض حجاجِ کرام طواف کے دوران میں اگر غلطی سے حجرِ اسود کے سامنے سے اشارہ کیے بغیر گذر جائیں، تو وہ حجرِ اسود کے سامنے دوبارہ واپس آنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، جس سے طواف کرنے والوں کو بے حد پریشانی ہوتی ہے۔ اس لیے اگر کبھی ایسا ہوجائے اور اِزدحام زیادہ ہو، تو دوبارہ واپس آنے کی کوشش نہ کریں۔ کیوں کہ طواف کے دوران میں حجرِ اسود کا بوسہ لینا یا اس کی طرف اشارہ کرنا سنت ہے، واجب نہیں۔
٭ طواف کے دوران میں رکنِ یمانی کو چھونے کے بعد (حجرِ اسود کی طرح) ہاتھ کا بوسہ دینا غلط ہے۔
٭ طواف اور سعی کے ہر چکر کے لیے مخصوص دعا کو ضروری سمجھنا غلط ہے، بلکہ جو چاہیں اور جس زبان میں چاہیں دعا کریں۔
٭ اِزدحام کے وقت حجاجِ کرام کو تکلیف دے کر مقامِ ابراہیم کے قریب ہی طواف کی دو رکعات ادا کرنے کی کوشش کرنا غلط ہے، بلکہ مسجدِ حرام میں جہاں جگہ مل جائے یہ دو رکعات ادا کرلیں۔
٭ طواف اور سعی کے دوران میں چند حضرات کا آواز کے ساتھ دعا کرنا صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ اس سے دوسرے طواف اور سعی کرنے والوں کی دعاؤں میں خلل پڑتا ہے۔
٭ بعض حضرات کو جب طواف یا سعی کے چکروں میں شک ہوجاتا ہے، تو وہ دوبارہ طواف یا سعی کرتے ہیں، یہ غلط ہے بلکہ کم عدد تسلیم کرکے باقی طواف یا سعی کے چکر پورے کریں۔
٭ بعض حضرات صفا اور مروہ پر پہنچ کر خانہ کعبہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہیں، ایسا کرنا غلط ہے بلکہ دعا کی طرح دونوں ہاتھ اٹھاکر دعائیں کریں، ہاتھ سے اشارہ نہ کریں۔
٭ بعض حضرات نفلی سعی کرتے ہیں، جب کہ نفلی سعی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
٭ بعض حجاجِ کرام عرفات میں جبلِ رحمت پر چڑھ کر دعائیں مانگتے ہیں۔ حالاں کہ پہاڑ پر چڑھنے کی کوئی فضیلت نہیں ہے بلکہ اس کے نیچے یا عرفات کے میدان میں کسی بھی جگہ کھڑے ہوکر کعبہ کی طرف رُخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعائیں کریں۔
٭ عرفات میں جبلِ رحمت کی طرف رُخ کرکے اور کعبہ کی طرف پیٹھ کرکے دعائیں مانگنا غلط ہے بلکہ دعا کے وقت کعبہ کی طرف رُخ کریں خواہ جبلِ رحمت پیچھے ہو یا سامنے۔
٭ عرفات سے مزدلفہ جاتے ہوئے راستہ میں صرف مغرب یا مغرب اور عشا دونوں کا پڑھنا صحیح نہیں ہے، بلکہ مزدلفہ پہنچ کر ہی عشا کے وقت میں دونوں نمازیں ادا کریں۔
٭ بعض حضرات عرفات سے نکل کر مزدلفہ کے میدان آنے سے قبل ہی مزدلفہ سمجھ کر رات کا قیام کرلیتے ہیں۔ جس سے ان پر دم بھی واجب ہوسکتا ہے۔ لہٰذا مزدلفہ کی حدود میں داخل ہوکر ہی قیام کریں۔
٭ مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشا کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی کنکریاں اٹھانا صحیح نہیں ہے، بلکہ مزدلفہ پہنچ کر سب سے پہلے عشا کے وقت میں دونوں نمازیں ادا کریں۔
٭ بہت سے حجاجِ کرام مزدلفہ میں دس ذی الحجہ کی فجر کی نماز پڑھنے میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں، اور قبلہ رُخ ہونے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے جس سے فجر کی نماز نہیں ہوتی۔ لہٰذا فجر کی نماز وقت داخل ہونے کے بعد ہی پڑھیں۔ نیز قبلہ کا رُخ واقف حضرات سے معلوم کریں۔
٭ مزدلفہ میں فجر کی نماز کے بعد عرفات کے میدان کی طرح ہاتھ اُٹھاکر قبلہ رُخ ہوکر خوب دعائیں مانگی جاتی ہیں، مگر اکثر حجاجِ کرام اس اہم وقت کے وقوف کو چھوڑ دیتے ہیں۔
٭ بعض حضرات وقت سے پہلے ہی کنکریاں مارنا شروع کردیتے ہیں۔ حالاں کہ رمی کے اوقات سے پہلے کنکریاں مارنا جائز نہیں ہے۔ پہلے دن یعنی دس ذی الحجہ کو طلوعِ آفتاب کے بعد سے کنکریاں ماری جاسکتی ہیں۔ بعض فقہا نے صبح صادق کے بعد سے کنکریاں مارنے کی اجازت دی ہے، مگر گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو زوالِ آفتاب یعنی ظہر کی اذان کے بعد ہی کنکریاں ماری جاسکتی ہیں۔ ہاں، اگر کوئی شخص غروبِ آفتاب سے قبل کنکریاں نہ مارسکا، تو ہر دن کی کنکریاں اُس دن کے بعد آنے والی رات میں بھی مارسکتا ہے۔
٭ بعض لوگ کنکریاں مارتے وقت یہ سمجھتے ہیں کہ اس جگہ شیطان ہے، اس لیے کبھی کبھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ اس کو گالی بکتے ہیں اور جوتا وغیرہ بھی ماردیتے ہیں۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں ماری جاتی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اللہ کے حکم سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے لے جارہے تھے، تو شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو انہیں تین مقامات پر بہکانے کی کوشش کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان تینوں مقامات پر شیطان کو کنکریاں ماری تھیں۔
٭ بعض خواتین صرف بھیڑ کی وجـہ سے خود رمی نہیں کرتیں بلکہ ان کے محرم ان کی طرف سے بھی کنکریاں ماردیتے ہیں۔ اس پر دم واجب ہوگا۔ کیوں کہ صرف بھیڑ عذرِ شرعی نہیں ہے اور بلاعذرِ شرعی کسی دوسرے سے رمی کرانا جائز نہیں ہے۔ عورتیں اگر دن میں کنکریاں مارنے نہیں جاسکتی ہیں، تو وہ رات میں جاکر کنکریاں ماریں۔ ہاں، اگر کوئی عورت بیمار یا بہت زیادہ کمزور ہے کہ وہ جمرات جاہی نہیں سکتی ہے، تو اس کی جانب سے کوئی دوسرا شخص رمی کرسکتا ہے۔
٭ بعض حضرات گیارہ، بارہ اورتیرہ ذی الحجہ کو پہلے جمرہ اور بیچ والے جمرہ پر کنکریاں مارنے کے بعد دعائیں نہیں کرتے۔ یہ سنت کے خلاف ہے۔ لہٰذا پہلے اور بیچ والے جمرہ پر کنکریاں مارکر ذرا دائیں یا بائیں جانب ہٹ کر خوب دعائیں کریں۔ یہ دعاؤں کے قبول ہونے کے خاص اوقات ہیں۔
٭ بعض لوگ بارہ ذی الحجہ کی صبح کو منیٰ سے مکہ طواف وداع کرنے کے لیے جاتے ہیں اور پھر منیٰ واپس آکر آج کی کنکریاں زوال کے بعد مارتے ہیں اور یہیں سے اپنے شہر کو سفر کرجاتے ہیں۔ یہ غلط ہے، کیوں کہ آج کی کنکریاں مارنے کے بعد ہی طوافِ وداع کرنا چاہیے۔

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔