جماعت صحابہ و تابعین نے دینِ اسلام کو اس کی اصل صورت میں قائم رکھنے کی مکمل پاس داری کی تھی، لیکن جو جو صحابہ، تابعین اور آئمہ مجتہدین کا زمانہ گزرتا چلا گیا، تو اس کے ساتھ ساتھ اسلام بھی روئے زمین کے ایک وسیع و عریض خطے پر پھیلتا چلا گیا۔ اُس وقت امتِ مسلمہ دنیا میں فاتح قوم بن کر ابھری جس کے نتیجے میں مختلف مذاہب و ادیان کے لوگ پے در پے مسلمان ہوتے گئے۔ اب جو لوگ مسلمان ہوئے ان سے اس بات کا تو اقرار لیا گیا کہ اللہ کے سوا کوئی حاجت روا اور معبود نہیں اور محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں۔ ان کو ضروریاتِ دین یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ کی تعلیم اور اسلامی تہذیب و معاشرت اور معمولات بھی سکھائے گئے، لیکن اکثریت تو عام لوگوں کی ہوتی ہے، جو اتنی جلدی تبدیل نہیں ہوتی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ انہوں نے حاکمِ اعلیٰ، اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کو تصور کیا تھا، لیکن صفاتِ باری تعالیٰ میں ان کے اذہان ابھی اس معیار کو نہیں پہنچے تھے، جس معیار پر صحابۂ کرام اور ان کے متبعین تھے۔ اور نہ ان کے ذہنوں سے ہندو مت اور یونانیات کے فلسفے اور ان کے پرانے مذاہب کا وہ تصور جو صفات خداوندی کے بارے میں تھا، مکمل طور پر مٹ چکا تھا، جس کی وجہ سے بعض لوگ بڑی آزمائش میں پڑ گئے اور انہوں نے صفاتِ حق تعالیٰ میں اپنے پرانے تصورات خلط ملط کرلیے۔ بدقسمتی سے بعض اہلِ علم جنہوں نے اپنے اوپر درویشی کا لبادہ اوڑھ لیا تھا اور الگ تلگ ہو گئے تھے، انہوں نے بھی کچھ ایسی اصطلاحات بیان کرنا شروع کیں، جو متشابہات کے زمرے میں آتی تھیں۔ اور اس فلسفے سے اتنے مرعوب ہوگئے کہ ضعیف اور موضوع روایات جو اصحابِ صفہ کے متعلق گھڑ لی گئی تھیں، اُس طرح کی روایات پر اعتماد کرکے ’’احیائے علومِ دین‘‘ کا سامان تیار کیا گیا۔ اور اس نفسی علوم کی مشقوں کو جو ہندوؤں اور یونانیوں کے ہاں رائج تھیں، ان میں چند کلمات کی ضربیں شامل کرکے اور کچھ طریقۂ کار کی تبدیلی کرکے اس پر اسلام کا لیبل چسپاں کر دیا گیا، جس کو تصوف کا نام دیا گیا، جو دین کی ایک نئی تعبیر کے طور پر ابھرا، جسے آج کل دین کی ’’صوفیانہ تعبیر‘‘ کہتے ہیں۔ اسی نظریہ کے حاملین میں آگے چل کر ابنِ عربی اور ابنِ سبعین جیسے قائلینِ وحدت الوجود بھی آئے، جنہوں نے صوفیوں کے لباس میں یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ یہ سب ایک ہی وجود ہے۔ اسی طرح انہوں نے مقامِ انبیا و اولیا میں بھی غلو کیا اور بڑی بد دیانتی کی۔ الغرض، وہ دین جسے صحابہ وتابعین قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھتے اور سمجھاتے تھے، وہ بالکل ایک دوسرے ذریعے سے سمجھا جانے لگا، یعنی ان صوفیوں اور خانقاہ نشینوں کے تخیلات اور مشاہدات کو دینیات کی تعبیر سمجھا جانے لگا، اور شرعیات میں بھی ان کے نفسی اوہام سے تفسیر ہونے لگی، اور ان کے خوابوں کو حجت تسلیم کیا جانے لگا، جس کی وجہ سے شرک کو اصل توحید کہا جانے لگا، اور سنت کی جگہ بدعات زور پکڑنے لگیں۔
شاید اس کی سزا میں امتِ مسلمہ پر تاتاریوں کو مسلط کیا گیا، جنہوں نے مسلمانوں کی درگت بنائی۔ بالآخر مسلمانوں کی وہ نورانی صبح حران کے افق پر طلوع ہوئی جب کہ تاتار کے تباہ کن حملے اسلام کی دنیوی شان وشوکت پامال کر چکے تھے۔ ہر طرف آہ و بکا اور خوف مسلط ہو چکا تھا۔ بس وہ ایک نادر بہار تھی جس نے صدیوں کی حولناک خزاں کے بعد اسلام کے اجڑے ہوئے حسن کی آرائش و زیبائش کا حیرت انگیز سامان فراہم کیا۔ معدن اسلام کا وہ ہیرا اور عمان علم و فضل کا وہ موتی شیخ الاسلام امام تقی الدین ابنِ تیمیہ کا وجود گرامی تھا۔
عزیزانِ من، شیخ الاسلام شرک و بدعت پر ضرب لگانے کے لیے الٰہی تلوار تھے۔ اسی تلوار کے بے نیام ہوتے ہی صوفیوں، پیروں اور خانقاہ نشینوں کے حلقوں میں شور مچ گیا۔ کیوں کہ شیخ الاسلام نے قائلینِ وحدت الوجود کے خلاف مستقل جہاد شروع کیا تھا، اور علی الاعلان ابنِ عربی، ابنِ سبعین اور مولانائے روم کی مخالفت شروع کردی تھی۔ اپنے وعظوں اور خطبوں میں صفاتِ باری تعالیٰ کے موضوع پر متکلمین اور گرویدۂ یونانیات کے انداز و اسلوب سے کنارہ کش ہو کر اسلاف کرام کے مسلک حلقہ کی تصریح فرماتے تھے۔ اپنی تحریروں میں متکلمین کی تخمینی اور ظنی مذہبی غلطیاں واضح کرکے علمائے حق اور سلف صالح کا مذہب و مسلک پیش کیا کرتے تھے۔ ایک ایک شرک کو بیان کرکے اس کا رد کرتے تھے اور ہر ایک بدعت سے پردہ ہٹا کر اس کی اصلیت لوگوں پر واضح کر دیتے تھے۔ شیخ الاسلام وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے بالکل دوسرے کنارے پر کھڑے ہو کر اس صوفی تعبیر کی رد کی اور اس کے برخلاف اس اصل تعبیر کو بیان فرمایا جو اسلاف کے ہاں سمجھی جاتی تھی۔ شیخ الاسلام نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دین کی تجدید میں صرف کیا۔ کبھی شرک وبدعت کے خلاف زبان اور قلم کے ساتھ جہاد کرتے، تو کبھی تلوار سونت کر تاتاریوں کے خلاف میدان جنگ میں ہمت و بہادری کے کارنامے رقم کرتے تھے۔ اس سے بڑھ کر قابلِ غور نکتہ تو یہ ہے کہ شیخ الاسلام کے سرفروشانہ جہاد کا سلسلہ محض اپنی ذات پر ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ ان کے اندر جو آسمانی حرارت شعلہ زن تھی، وہ ہزاروں تاریک ہستیوں اور ہزاروں دلوں میں حیاتِ تازہ اور نئی زندگی کا سامان بنی۔ مرج الصغر میں جس کا نام شقحف ہے، تاتاریوں سے مقابلہ ہوا۔ شیخ الاسلام بنفس نفیس اس جہاد میں شریک ہوئے۔ حالت یہ تھی کہ میدان میں شیر کی طرح پھرتے تھے۔ کبھی لڑنے لگ جاتے۔ کبھی لوگوں کو استقامت کی تلقین فرمانے لگ جاتے۔ سلطان ناصر نے میدانِ جنگ میں تاتاریوں کی کثرت دیکھی، تو بے اختیار اس کے منھ سے ’’یا خالد‘‘ کا کلمہ نکل گیا، جس پر شیخ الاسلام نے فوراً اسے ٹوکا اور فرمایا: ’’یا اللہ، یا مالک یوم الدین‘‘کہہ، اس حقیقی مالک سے مدد مانگ۔ تو ثابت قدمی اختیار کر فتح تیرے ہی لیے ہے۔
گھمسان کا رن پڑا اور آخرکار تاتاریوں کی تمام فوجیں برباد ہوگئیں، لشکرِ اسلامی کو نہایت عظیم الشان فتح حاصل ہوئی۔ شقحف کی فتح کے بعد زمانے میں شیخ الاسلام کی دھاک بیٹھ گئی، جب فاتحانہ حیثیت میں دمشق تشریف لائے، تو اہلِ دمشق نے نہایت عظیم الشان استقبال کیا۔ لوگ انتہائی عزت و تکریم سے پیش آئے۔ شیخ الاسلام کی اس قدر کامیابیاں اور عوام میں مقبولیت دیکھ کر صوفیوں اور خانقاہ نشینوں کے دل میں بغض و کینہ اور شدت اختیار کر گیا۔ شیخ علم الدین برزالی فرماتے ہیں کہ شوال 707 ہجری میں کریم الدین آملی، ابنِ عطا وغیرہ کم وبیش 500 صوفیوں نے شیخ الاسلام کے خلاف شکایت کی۔ یہ سب لوگ ہجوم کی صورت میں قلعہ کے نیچے جمع ہو کر فریاد کرنے لگے۔ اس پر قلعہ میں ایک مجلس منعقد ہوئی جس میں شیخ الاسلام پر عائد کردہ الزامات غلط ثابت ہوئے۔ اس بحث میں شیخ الاسلام نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ ناجائز سمجھتا ہوں، جس کے نفی اور اثبات میں لوگ دو گروہ ہوگئے۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ مقدمہ قاضی کے پاس پیش ہو، لیکن فتنہ بڑھ رہا تھا۔ اس لیے سلطنت کی طرف سے فرمان جاری ہوا کہ شیخ الاسلام اگر چاہیں، تو چند شرطیں مان کر قاہرہ یا دمشق میں قیام پذیر رہیں۔ ورنہ قید قبول کریں۔ شیخ الاسلام نے فرمایا کہ میں خود قید خانے جاتا ہوں۔ کیوں کہ مصلحت یہی ہے۔ اس قید کے دوران میں اسوۂ یوسفی کی بوجہ احسن تکمیل عمل میں آئی اور مصر کے قیدخانے میں ایک مرتبہ پھر ’’ارباب متفرقون خیرام اللہ الواحد القہار‘‘ کی حقانی آواز گونج اٹھی۔ قیدخانے میں قیدیوں کی حالت انتہائی ابتر تھی۔ شیخ الاسلام نے جاتے ہی اصلاح کا کام ہاتھ میں لے لیا۔ قیدیوں کو نماز اور عبادات پر ثابت قدم کیا اور ان کے عقائد کی اصلاح کی۔ غرض چند روز کے اندر قید خانہ اعلیٰ درجے کی عبادت گاہ بن گیا، تو دشمنوں کو یہ بات بھی ناگوار معلوم ہوئی۔ انہوں نے شور مچاکر انہیں قاہرہ کے قیدخانے سے اسکندریہ منتقل کرادیا۔ جب سلطان ناصر مصر آیا، تو اس نے انتہائی عزت و تکریم کے ساتھ شیخ الاسلام کو قاہرہ بلایا اور ان کے مخالفین کو سزا دینے کا ارادہ ظاہر کیا، لیکن شیخ الاسلام نے ان پر قابو پانے کے بعد ان کو معاف کر دیا۔ اس کے چند سال بعد ان سازشیوں نے پھر شیخ الاسلام کے خلاف ان کے پرانے فتاوے اکھٹا کرکے ایک نئی آگ بھڑکا دی۔ ان کے بڑے بڑے مفتیوں نے کفر کا فتوا دیا اور سلطان کے پاس جاکر شیخ الاسلام کو واجب القتل قرار دے دیا۔ سلطان قتل پر راضی نہ ہوا۔ البتہ ان کے اطمینان کے لیے اس نے شیخ الاسلام کو قید کرنے کا حکم دیا۔ اب اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر شیخ الاسلام تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئے۔ قرآن مجید کے حقائق پر بہت کچھ لکھا اور قرآن کے مشکل اور ادق مقامات کی تفسیر لکھی۔ جن مسائل کی وجہ سے ان پر مصیبتیں نازل ہوئی تھیں، ان کی تشریح فرمائی اور ان پر کفر کا فتوا دینے والوں پر رد لکھا۔ یہ تمام تحریریں ملک میں آگ کی طرح پھیلیں، تو اس پر بھی ان کے مخالفین نے شور برپا کیا اور آخرِکار وسائل تحریر یعنی کاغذ، قلم اور دوات پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ کاغذ، قلم، دوات کی بندش کے بعد اب شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ تلاوت، تہجد اور مناجات میں مصروف ہوگئے اور فرماتے تھے کہ قید میری خلوت ہے، قتل میری شہادت ہے اور جلاوطنی میری سیاحت ہے۔
بالآخر دورانِ قید 20 دن بیمار رہنے کے بعد ذی قعدہ 728 ہجری میں مجددیت کبریٰ کا یہ آفتابِ درخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ ان للہ و انا الیہ راجعون!

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔