مسلمانانِ عالم کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ اللہ کی رحمتِ خاص سے انہیں ایک بار پھر ماہِ صیام دیکھنے اور اس کے بے شمار فیوض و برکات سمیٹنے کا موقع مل رہا ہے۔ رحمتِ خاص اس لیے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیبؐ کی رضا اور خوشنودی حاصل کریں۔ ارکانِ اسلام میں روزہ تیسرا بنیادی رُکن ہے، جس کی پابندی شہادتِ توحید و رسالت اور نماز کے بعد فرض ہے۔ روایات کے مطابق اس کی فرضیت کا حکم دوسری صدی ہجری میں تحویلِ کعبہ کے دس پندرہ روز بعد نازل ہوا۔ رمضان المبارک کو ماہِ صیام قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے ارشاد فرمایا کہ "تم میں سے جو شخص رمضان کو پالے، تو اُسے چاہیے کہ روزہ رکھے۔” اس کے علاوہ خدائے بزرگ و برتر نے روزے کی فضیلت کے باب میں بلااستثنا مرد و زن تمام اہلِ ایمان سے ارشاد فرمایا کہ "اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی اُمتوں پر فرض تھے، تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔ روزہ انسان میں برداشت، صبر و استقامت اور تحمل کا مادہ پیدا کرتا ہے، جب کہ اس بارے یہ ایک روحانی مشق ہے۔ لیکن شومئی قسمت کہ ماہِ رمضان شروع ہوتے ہی ہمارے ہاں لڑائی، جھگڑے اور دنگا فساد عروج پر پہنچ جاتا ہے۔
حالاں کہ آںحضرتؐ  کا ارشادِ مبارک ہے کہ "روزہ ڈھال ہے، پس کوئی مومن روزہ دار کوئی فحش بات نہ کرے۔ اگر کوئی اس سے لڑے یا گالی دے، تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔” اس سلسلے میں سردارِ دوجہاںؐ  کی دوسری حدیث بھی ہے کہ "جو شخص رمضان المبارک کی آمد پر خوشی منائے گا، اور اس ماہ کا شایانِ شان استقبال اور صحیح معنوں میں روزے کا اہتمام کرنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش میں لگا رہے گا، تو اس پر دوزخ کی آگ حرام کردی جائے گی۔” موجودہ دور میں اہلِ اسلام اور خصوصاً مسلمانانِ پاکستان سخت آزمائش سے دوچار ہیں۔ وطنِ عزیز میں مسلسل مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور طبقۂ مقتدرہ کی قومی وسائل کی لوٹ مار نے ملکی اقتصادی حالت تباہ کر دی ہے، جس سے معاشرے میں سخت بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ چوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس ماہِ مقدس میں اپنے بندوں کے لیے فضائل و برکات اور رحمتوں کا بے حد و حساب اہتمام کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ اجتماعی توبہ و استغفار کا مہینہ بھی ہے۔ لہٰذا اس مبارک مہینہ کی ہر ایک باسعادت لمحہ سے بھرپور فائدہ اُٹھا کر ہمیں آئندہ زندگی میں دل آزاری، حرام خوری اور گناہوں سے بچنے کی عادت پیدا کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ ماہِ مبارک دوسروں سے ہمدردی اور احسان کادرس بھی دیتا ہے۔ آنحضرتؐ  خود بھی رمضان المبارک میں عام مہینوں کی نسبت زیادہ غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور مسافروں کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔ اس موقعہ پر آپؐ کی فیاضی اور سخاوت بے نظیر تھی۔ لہٰذا ہمیں بھی اس ماہِ مبارک میں معاشرے کے غریبوں، لاچاروں اور بے وسیلہ لوگوں کے ساتھ حتی الوسع مالی تعاون کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ صبر اور احسان کا مہینہ ہے اور صبر اور احسان کا بدلہ خدا کے ہاں جنت ہے۔ اسی طرح ہمیں روزوں کی شان کو دوبالا کرنے اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی اور رضا حاصل ہوگی۔

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔