حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جو کچھ سنے (بلا تحقیق) اُسے آگے نقل کر دے۔ (صحیح مسلم: مقدمہ)
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا  کہ: جو شخص میری طرف منسوب کرکے کوئی بات بیان کرے اور جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے، تو وہ بھی جھوٹوں میں سے ایک ہے۔ (صحیح مسلم: مقدمہ)
حضرت اسماء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کی: رسولؐ اللہ میری ایک سوکن ہے، اگر میں اس پر ظاہر کروں کہ خاوند مجھے بہت اہمیت دیتا ہے (حالاں کہ) ایسا نہ ہو، تو کیا مجھے گناہ ہوگا، تو نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ خلافِ واقعہ کسی چیز کو ظاہر کرنے والا جھوٹ کے دو کپڑے پہنتا ہے۔ (صحیح بخاری : کتاب النکاح)
مفہوم:
1۔ ان احادیث میں بلا تحقیق بات نقل کرنے کی ممانعت ذکر کی گئی ہے۔
2۔ یہاں ایک اصولی ہدایت ہے کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والا بڑا نتیجہ مرتب ہوتا ہو، تمھیں ملے، تو اسے قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے؟ اس کی بات اعتماد کے لائق ہے یا نہیں؟
3۔ اس حدیث کی بنا پر محدثین نے علمِ حدیث میں جرح و تعدیل کا فن ایجاد کیا ہے۔
4۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہے کہ محدثین نے فلاں حدیث کو ’’موضوع‘‘ یعنی خود ساختہ قرار دیا ہے، تو یہ بتائے بغیر کہ ’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے‘‘ دوسروں کو اسے بیان کرنے والا بھی جھوٹا اور گناہ گار ہے۔
5۔ سوکن کا معاملہ تو ویسے بھی زیادہ نازک ہوتا ہے۔ اس لیے انھیں تو اس معاملہ میں زیادہ خدا خوفی کا ثبوت دینا ہے۔ (صفحہ: 14,15 )
(مجلہ ’’نا پسندیدہ اخلاق‘‘ مطبوعہ دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، یونٹ 15، صفحہ 14 اور 15 سے انتخاب)