تمام مکاتب قبر کو دوبارہ کھلوانے کے خلاف ہیں، چاہے وہ قبر کسی بالغ کی ہو یا بچے کی، ہوش مند کی ہویا پاگل کی۔ ایسااُسی صورت میں کرنے کی اجازت ہے: جب یقین ہو کہ لاش تحلیل ہوکر خاک میں مل چکی ہے، یا پھر سیلاب یا دریا کے کٹاؤ وغیرہ کی وجہ سے قبر کو خطرہ ہو، یا میت کو لاپروائی یا لاعلمی کے باعث یا زبردستی کسی غصب شدہ زمین پر دفن کر دیا گیا ہو اور مالکِ زمین اجازت دینے اور معاوضہ لینے کو تیار نہ ہو، یا لاش کا کفن ناجائز کپڑے کا ہو، یا میت کے ساتھ غلطی سے کوئی قیمتی شے بھی دفن ہوگئی ہو۔
اس بارے میں مکاتب کے درمیان اختلافِ رائے پایا جاتا ہے کہ اگر میت کو غسل دیے بغیر یا خلافِ شریعت انداز میں غسل دینے کے بعد دفنایا گیا ہو، تو ایسی صورت میں قبر کو دوبارہ کھلوانا چاہیے یا نہیں۔ اس معاملے میں حنفی اور کچھ جعفری کہتے ہیں کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔ کیوں کہ یہ لاش کی بے حرمتی ہے اور اس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حنبلی، شافعی، مالکی اور بیش تر جعفری فقہا کے مطابق اگر میت کے خراب ہونے کا احتمال نہ ہو، تو قبر کو دوبارہ کھولا اور میت کو نہلایا اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی جاسکتی ہے۔
کچھ جعفری مزید کہتے ہیں اگر کسی دعوے یا حق کی بنیاد جسم کے معائنے پر ہو، تو قبر کو دوبارہ کھلوایا جاسکتا ہے۔
(’’اسلامی شریعت کا انسائیکلو پیڈیا‘‘ از لیلہ بختیار، ترجمہ یاسر جواد مطبوعہ ’’نگارشات‘‘، پہلی اشاعت 2018ء، صفحہ 70 سے انتخاب)