اس بارے میں عمومی اتفاقِ رائے یہ پایا جاتا ہے کہ کسی زندہ شخص کی جانب سے نماز پڑھنے اور روزوں کے لیے ایک قائم مقام مقرر کرنا کسی بھی صورت جائز نہیں، چاہے وہ شخص خود نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے کے قابل ہو یا نہ ہو۔ جعفری کہتے ہیں کہ کسی متوفی شخص کی جگہ پر نمازیں پڑھنا اور روزے رکھنا جائز ہے۔ حنفی، حنبلی، مالکی اور شافعی مکاتب کے مطابق زندہ کے ساتھ ساتھ مردہ شخص کے لیے بھی ایسا نہیں کیا جاسکتا۔
مکاتب کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص طوالت پذیر حج کا فریضہ ادا کرنے کی ہمت نہ رکھتا ہو، تو اس کے لیے اپنا ایک قائم مقام مقرر کر دینا جائز ہے۔ البتہ مالکی کہتے ہیں کہ کسی بھی زندہ یا مردہ شخص کا قائم مقام مقرر کرنا بے کار اور بے فائدہ ہے۔
اس رائے میں جعفری تنہا ہیں کہ کسی بچے کا فرض ہے کہ وہ اپنے باپ یا ماں کی چھوڑی ہوئی نمازوں اور روزوں کو پورا کرے۔ لیکن اُن کے اپنے درمیان بھی اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ کچھ ایک کہتے ہیں کہ ماں باپ کی دانستہ چھوڑی ہوئی عبادات کو بھی انجام دینا لازمی ہے۔ دیگر کی رائے میں صرف مجبوراً (مثلاً بیماری وغیرہ کے باعث) قضا کی ہوئی عبادات کو بطورِ قائم مقام پورا کرنا ضروری ہے۔ کچھ دیگر یہ بھی کہتے ہیں کہ ماں باپ کی طرف سے صرف وہی نمازیں ادا کرنا لازمی ہے جو مرض الموت کے دوران وہ انجام نہ دے سکے ہوں۔ (’’اسلامی شریعت کا انسائیکلو پیڈیا‘‘ از لیلہ بختیار، ترجمہ یاسر جواد مطبوعہ ’’نگارشات‘‘، پہلی اشاعت 2018ء، صفحہ 115 سے انتخاب)