اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی پیدائش کا جو عمومی ضابطہ بنایا ہے، وہ یہ ہے کہ مرد وعورت کا نکاح کرکے صحبت کرنا، اس کے بعد اللہ کے حکم سے حمل ٹھہرنا اور ولادت کا ہونا ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اس ضابطہ کے علاوہ بھی بعض انسانوں کی تخلیق کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اس طرح پیدا فرمایا کہ اُن کی پیدائش میں کسی مرد کا کوئی دخل تھا، نہ کسی عورت کا۔ حضرت حوا کو چوں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا تھا، اس لیے ان کی پیدائش میں مرد کا تو فی الجملہ دخل تھا، عورت کا کوئی دخل نہیں تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو باپ کے بغیر صرف ماں (حضرت مریم بنت عمران علیہا السلام) سے فلسطین کے مشہور شہر ’’بیت لحم‘‘ میں پیدا فرمایا، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران آیت 59 میں بیان فرمایا کہ ’’اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے، اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا کیا،پھر اُن سے کہا کہ ہوجاؤ، بس وہ ہوگئے۔‘‘
قرآن و حدیث کی روشنی میں تمام مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول اور نبی ہیں۔ قرآن کریم میں تقریباً 25 جگہوں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام ذکر ہوا ہے اور اُن کو پھانسی نہیں دی گئی، بلکہ انہیں آسمانوں میں اٹھالیا گیا اور اُن جیسے ایک دوسرے شخص کو پھانسی دی گئی تھی۔ جیساکہ سورۃ النساء آیت 157 اور 158 میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا: ’’انہوں نے عیسیٰ کو نہ قتل کیا تھا، اور نہ انہیں سولی دے پائے تھے، بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔‘‘
غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی نہیں دی گئی تھی، بلکہ انہیں اوپر اٹھا لیا تھا۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل نبی اکرمؐ نے بیان فرمائی ہے جو احادیث میں موجود ہے۔ نیز احادیث میں ہے کہ قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر ہوگا، اور پھر اُن کی سرپرستی میں دنیا کے چپہ چپہ پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخِ ولادت کے متعلق کوئی تحقیقی بات کسی بھی مذہب کی مستند کتاب میں موجود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ عیسائیوں کی کتاب میں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ 25 دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، لیکن کسی دلیل کے بغیر عیسائیوں نے 25 دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش تسلیم کرلیا ہے۔ حالاں کہ قرآن وحدیث اوراسی طرح بائبل سے جو اندازہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش گرمی کے موسم میں ہوئی تھی۔
بائبل (باب 6 آیت 8) میں ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام رات میں پیدا ہوئے، تو اُس وقت چرواہا اپنی بھیڑوں کو باہر چرا رہا تھا۔
بیت لحم میں دسمبر کے آخری ایام میں اتنی برف باری ہوتی ہے کہ کوئی شخص اپنے گھر سے بھی باہر نہیں نکل سکتا۔ اور بائبل میں ہے کہ چرواہا اپنی بھیڑوں کو باہر چرارہا تھا۔ دسمبر کے مہینے میں بیت لحم (فلسطین) میں سخت برف باری کی وجہ سے رات کے وقت بھیڑوں کو باہر چرانا ممکن ہی نہیں۔ نیز قرآن کریم (سورۃ مریم آیت 25) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے فوراً بعد حضرت مریم سے کہا کہ تم کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ، اس میں سے پکی ہوئی تازہ کھجوریں تم پر جھڑیں گی، اس کو کھاؤ۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ کھجوریں سردیوں کے موسم میں نہیں بلکہ گرمیوں کے موسم میں پکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد دلائل ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش گرمیوں میں ہوئی۔
عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جنا (معاذ اللہ) یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں، جس کی (سورۃ مریم 88 تا 92) میں بہت سخت الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تردید کی ہے: ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد ہے، (ایسی بات کہنے والو!) حقیقت یہ ہے کہ تم نے بڑے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے، کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین پھٹ جائے، اور پہاڑ ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں، کہ لوگوں نے اللہ کے لیے اولاد کا دعویٰ کیا ہے، حالاں کہ اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔‘‘
سورۂ الاخلاص میں بھی اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں بیان کردیا کہ اللہ کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ غرض یہ کہ قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کی روشنی میں تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے نہیں بلکہ بشر ہیں، اور اس میں کوئی بھی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔
عیسائی لوگ 25 دسمبر کو اس یقین کے ساتھ "Merry Christmas” مناتے ہیں کہ 25 دسمبر کو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جنم دیا (نعوذ باللہ)۔ ہم اُن کے مذہب میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتے، لیکن ہمارا یہ دینی فریضہ ہے کہ اس موقع پر منعقد ہونے والی اُن کی مذہبی تقریبات میں شرکت نہ کریں اور نہ کسی شخص کو ’’میری کرسمس‘‘ کہہ کر مبارک باد پیش کریں۔ کیوں کہ یہ جملہ قرآن وحدیث کی روح کے سراسر خلاف ہے۔ ہاں، اگر آپ کا کوئی پڑوسی یا ساتھی عیسائی ہے اور وہ اس موقع پر ’’میری کرسمس‘‘ کہتا ہے، تو آپ خوش اسلوبی کے ساتھ دوسرے الفاظ مثلاً ’’شکریہ‘‘ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ کیوں کہ جس عقیدہ کے ساتھ ’’میری کرسمس‘‘(Merry Christmas) منایا جاتا ہے, وہ قرآنی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ آپ کو اپنے پڑوسی یا ساتھی کی فکر ہوسکتی ہے، لیکن دوسری طرف اللہ کی ناراضی اور سخت عذاب کا بھی معاملہ ہے، اس لیے واضح الفاظ میں اُن سے کہہ دیا جائے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام باوجود یہ کہ ایک برگزیدہ رسول اور نبی ہیں، مگر وہ اللہ کے بیٹے نہیں۔

…………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔