فریضۂ نبوت پایۂ تکمیل تک پہنچ چکا، تو سرورِ کائناتؐ نے دنیا سے پردہ فرمانے سے قبل اسلامی تعلیمات کو دنیا اور خصوصاً سارے عرب تک پھیلانے کے لیے امیرِ حج کے فرائض خود ادا فرمائے۔ چناں چہ تمام اطراف سے اس شرفِ عظیم کے حصول کے لیے مسلمانوں کی ایک عظیم تعداد مدینہ منورہ پہنچ گئی۔ ذوالحلیفہ کے مقام پر جب احرام باندھا گیا، تو فضا ’’لبیک اللہم لبیک‘‘ یعنی میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں کی تقدس آمیز صداؤں سے گونج اُٹھی۔ اس موقع پر فرزندانِ توحید کا ایک بحرِ ذخار حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے جانبِ مکہ معظمہ رواں دواں تھا۔
اللہ تعالیٰ کے آخری رسولؐ نے ہر مرحلہ پر عوام کو مناسکِ حج سے آگاہ فرمایا۔ حج کی مشرکانہ رسوم ختم کردی گئیں اور برسوں بعد سنتِ ابراہیمی علیہ السلام کے مطابق حج کا مقدس فریضہ ادا کیا گیا۔ تمام مناسکِ حج ادا کرنے کے بعد 9 اور 10 ذی الحجہ کو سرورِ کائناتؐ نے میدانِ عرفات میں ناقہ (اونٹنی) پرسوار ہوکر اہلِ ایمان سے خطاب فرمایا۔ آپؐ کی اسی تاریخی تقریر کو خطبۃ الوداع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ خطبہ اسلامی تعلیمات کا مغز، نچوڑ اور لب لباب ہے۔ اس موقع پر آپ نے اہلِ اسلام کو جو ہدایات اور احکام دیے ان کو مختصراً درج کیا جاتا ہے۔
٭ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور محمدؐ اس کا بندہ اور رسول ہے۔
٭ جاہلیت کے تمام دستور آج سے ختم کردیے گئے ہیں۔
٭ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ تمام انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔
٭ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
٭ اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔ جو خود کھاؤ وہی انہیں کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی انہیں پہناؤ۔
٭ جاہلیت کے تمام خون باطل کردیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون معاف کرتا ہوں جسے ہذیل نے مار ڈالا تھا۔
٭ جاہلیت کے تمام سود باطل کردیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا یعنی عباس بن عبدالمطلب کا سود معاف کرتا ہوں۔
٭ عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔ جس طرح تمہارا عورتوں پر حق ہے، اسی طرح عورتوں کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری آبرو تاقیامت اسی طرح محترم ہیں جس طرح یہ دن، یہ مہینہ اور یہ شہر محترم ہیں۔
٭ میں تم میں ایک چیز چھوڑے جا رہا ہوں، اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا، تو کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔ وہ چیز خدا کی کتاب قرآنِ حکیم ہے۔
٭ خدانے ہر حق دارکو اس کا حق دے دیا ہے۔ لہٰذا اب کسی وارث کے حق میں وصیت جائزنہیں۔
٭ جو انسان اپنے والد کے علاوہ کسی اور کے نسب کا دعویٰ کرے اور جو غلام اپنے مالک کے علاوہ کسی اور کے نسبت دعویٰ کرے اس پر خدا کی لعنت ہے۔
٭ قرض ادا کیا جائے۔ عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کی جائے۔ عطیہ لوٹایا جائے۔ ضامن، تاوان کا ذمہ دار ہے۔ عورت کو اپنے خاوند کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کسی کو کچھ دینا جائزنہیں۔
٭ مجرم اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہے۔ باپ کے جرم کا بیٹا ذمہ دار نہیں اور نہ بیٹے کے جرم پر باپ ذمہ دار ہوگا۔
٭ اگر ناک کٹا حبشی غلام بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کی طرف بلائے، تو اس کی اطاعت کرو۔
٭ اپنے رب کی عبادت کرو۔ نمازپڑھو، رمضان کے روزے رکھو اور میرے احکام اور طریقوں پرعمل کرو، یقینا تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤگے۔
سرکارِدو جہاںؐ کا خطبۃ الوداع اسلام کے سیاسی،سماجی اور تمدنی احکامات کا جامع منشور ہے بلکہ اگر اسے ’’عالمی منشور‘‘ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔

………………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔