پاکستان اور ہندوستان میں ’’مدرسہ ایجوکیشن سسٹم‘‘ کی افادیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پوری دنیا میں مدرسہ وہ واحد غیرمنافع بخش این جی او ہے جس نے لاکھوں طلبہ کو مفت تعلیم کی سہولت فراہم کی ہے۔ صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ مدرسہ ان طلبہ کو رہائش، تین وقت کا کھانا اور سفری سہولیات بھی فراہم کرتا ہے۔ آیئے، مدرسہ سسٹم کو سمجھتے ہیں۔
مدرسہ جیسے کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ درس وتدریس سے ماخوذ ہے، یعنی ایک ایسا مکان جس میں درس وتدریس کے فرائض سرانجام دیے جاتے ہوں۔ اسلامی مدارس میں سب سے ابتدائی درجہ یہ ہے کہ بچہ اس بات کو سمجھ لے کہ قرآن کیسے پڑھا جائے، اس کے لیے قاعدہ سکھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، قاعدے میں چھوٹے چھوٹے عام فہم قواعد ہوتے ہیں جن کو بچہ یاد کرلیتا ہے، ان قواعد وقوانین کا اجرا قرآن سے ماخوذ الفاظ سے کیا جاتا ہے۔ اس طرح بچہ ایک یا دومہینے میں اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ ہجوں کے ساتھ پارہ پڑھ سکے۔ ایک دو پاروں کے ہجے کرکے بچے کو رفتہ رفتہ قرآن شناس بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایک آیت دو آیتیں اور پھر ایک صفحہ، صفحہ سے ایک رکوع، رکوع سے ایک پاؤ، پھر پورا پارہ سبق کے لیے دیا جاتا ہے جس کو بچہ روانی اور خوش الحانی کے ساتھ پڑھتا ہے جس کی حلاوت کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ناظرہ قرآن کے بعد بچے کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں یا تووہ قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھ لے، یا پھر اسے حفظ کرکے اس کو سینے میں محفوظ کرلے۔ گوکہ یہ دونوں کام بھی کیے جاسکتے ہیں لیکن طلبہ کے میلان اور والدین کی خواہش کو اس میں مدنظر رکھا جاتا ہے۔ حفظ کی مدت ایک سال سے لے کر تین سال تک ہے۔ اس عرصے میں بچہ پورا قرآن پختگی کے ساتھ حفظ کرلیتا ہے اور یوں وہ اس کو تراویح میں بھی سنا سکتا ہے۔ ترجمے میں عام فہم انداز سے روانی کے ساتھ قرآن کے الفاظ کے معانی بیان کیے جاتے ہیں۔ اس عرصے میں احکام کی تفصیل بچوں کو بتانا ضروری نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ان کی سمجھ کے مطابق ہی اساتذہ ان کو ترجمہ پڑھاتے ہیں۔
ابتدائی مدرسے سے نکل کر درجاتِ کتب کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔ کتب کے آٹھ درجات ہوتے ہیں۔ عام مدارس میں درجۂ اولیٰ میں داخلہ کے لیے میٹرک پاس کی شرط لگائی جاتی ہے۔ تاہم اگر طالب علم مدرسہ میں رہ کر میٹرک کرنا چاہے، تو اسے مڈل یا پرائمری سند کے ساتھ ہی داخلہ دیا جاتا ہے اور مدرسہ ہی طالب علم کو میٹرک کرواتا ہے۔ ایسی صورت میں طالب علم درجۂ اولیٰ سے پہلے چند درجات پڑھتا ہے جو کہ مدرسہ کی طرف سے لازمی ہوتے ہیں۔ درجۂ اولیٰ میں عربی گرائمر جیسے صرف، نحو اور عربی زبان کی مشق کرائی جاتی ہے۔ درجۂ ثانویہ عامہ میں اسی گرائمر کی کچھ ایڈوانس کتابیں رکھی جاتی ہیں اور ساتھ میں علم، فقہ اور علمِ منطق سے بھی ایک ایک کتاب پڑھائی جاتی ہے۔ درجۂ ثانویۂ عامہ کے بعد ثانویۂ خاصہ سالِ اول کا مرحلہ آتا ہے جس کو عرفِ عام میں درجۂ ثالثہ کہا جاتا ہے۔ اس درجے میں فقہ کی کچھ ایڈوانس کتب اور اصولِ فقہ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد درجۂ ثانویۂ خاصہ یعنی درجۂ رابعہ میں بھی نحو، علم منطق، فقہ، اصولِ فقہ اور عربی انشا کی مزید کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔
یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ مدارس کے ایجوکیشن سسٹم میں بعض علوم بار بار پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالب علم ایک فن کی ابتدائی مسائل کو سمجھنے کے بعد اس کو ایڈوانس لیول میں بھی سمجھ لے، تاکہ آگے مطالعہ کرنے میں اسے کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔ اسی طرح ایک فن پر عبور پانے کے بعد اگلے درجے میں اس فن کی کتاب کو حذف کیا جاتا ہے۔
درجۂ خامسہ یا عالیہ سالِ اول میں بھی اصولِ فقہ، تفسیر، اصولِ تفسیر، فلسفہ اور فلکیات کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ عالیہ سالِ دوم یعنی سادسہ میں اصولِ حدیث کا بھی اضافہ کیا جاتا ہے اور اسلامی معاشیات کے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد عالمیہ سالِ اول کا مرحلہ آتا ہے جس میں فقہ کو انتہائی باریکی کے ساتھ اور حدیث کی کتابوں میں سے مشکوٰۃ المصابیح جیسی مشہور کتاب پڑھائی جاتی ہے۔ ساتھ میں اصولِ حدیث اور اصولِ افتا بھی ایڈوانس لیول میں پڑھایا جاتا ہے کہ فتویٰ دینے کے آداب، اہلیت اور طریقۂ کار کیا ہوگا؟ کیا ہر ایک عالم فتویٰ دے سکتا ہے یا پھر اس کی کچھ شرائط وضوابط بھی ہیں؟ سو اس کو علمائے متقدمین کی کتب اور فرامین کی روشنی میں طالب علم کو ازبر کرایا جاتا ہے۔
آخری مرحلہ دورۂ حدیث کا ہے۔ بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اس آخری مرحلے میں درجۂ تفسیر ہونا چاہیے تھا، نہ کہ درجہ حدیث۔ تو اس غلط فہمی کا اِزالہ یہ ہے کہ حدیث دراصل قرآن کی سب سے معتبر ترین تفسیر ہے۔ اور مدرسہ کا مقصد طالب علم کو قرآن اس کی تمام جہات سے سمجھانا ہے۔ تاکہ طالب علم جب معاشرے میں جائے، تو وہ قرآن کے ہر علم، ہر منشا اور ہر غرض کو سمجھ چکا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام صرف ترجمے سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے قرآن کی تفسیر کو پڑھنا لازمی ہوگا۔ اتنا عرصہ مدرسے میں گزار کر، درمیانی درجات میں ترجمہ پڑھ کر اور عربی زبان کو سمجھنے کے بعد طالب علم کو ترجمہ میں کوئی خاص دشواری پیش نہیں آتی، بس اسے تفسیر سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سو اس آخری درجے میں حدیث کی کتب کو پڑھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مدرسے میں یہ آخری سال طلبہ کے لیے ذہن سازی، دنیا و آخرت کے امور کو سمجھنے، لوگوں کے درمیان میں رہ کر ان کے ساتھ برتاؤ کرنے اور معاشرے میں داعی بن کر لوگوں کی فلاح وبہبود کے حوالے سے انتہائی اہم سال ہوتا ہے۔ دورۂ حدیث میں حدیث کے چھے معتبر ترین کتب کے علاوہ مؤطا امام مالک، مؤطا امام محمد اور دیگر کتبِ حدیث پڑھائی جاتی ہیں۔ دورۂ حدیث روحانی سکون کا وہ مرحلہ ہوتا ہے جو دنیا میں چند ہی خوش نصیبوں کے حصے میں آتا ہے۔
احادیث کی کتب میں فقہی احکامات کی احادیث کے علاوہ آدابِ زندگی اور معاشرے کو پُرامن اور تہذیب یافتہ بنانے کا بہت خوبصورت انداز پایا جاتا ہے۔ کالم کی تنگ دامانی کی وجہ سے میں یہاں مثالیں نہیں دے سکتا، ورنہ آپ ان احادیث کو سن کر عش عش کر اٹھتے جن میں آدابِ معاشرت کا ذکر ہے۔ دورہ ٔحدیث کے اختتام پر طالب علم کے سر پر دستارِ فضیلت رکھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ طالب علم اب رسمی تعلیمی مراحل میں گریجویٹ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد تخصصات یعنی سپیشلائزیشن کے مراحل ہوتے ہیں جن میں طالب اپنے رجحان کو دیکھ کر اپلائی کرتا ہے۔ یہ تخصصات فقہ، حدیث، دعوہ و ارشاد و دیگر شعبہ جات میں کرائے جاتے ہیں۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔