"خوشحال خان خٹک نے کہا تھا کہ سوات وہ وادی ہے جو لوگوں کے دلوں کو خوشی سے بھر دیتی ہے، تو آج کے عہد میں خوشی کی جتنی کمی ہے، وہ صرف سوات جانے سے ہی پوری ہوسکتی ہے۔ اور اگر سوات جانا ہے، تو کیسے جانا ہے اور وہاں کہاں کہاں جانا ہے اور کیا دیکھنا ہے؟ بس یہی مشکل سوال تھے جنھیں راہیؔ نے حل کردیا ہے اور یہ مشکل آسان ہوگئی ہے۔ سفر نامے کسی وادی یا علاقے کے بارے میں دل میں امنگ تو پیدا کرسکتے ہیں کہ وہاں جانا چاہیے لیکن آپ کی انگلی پکڑ کر آپ کو سفری ہدایات نہیں دے سکتے۔ اور یہ کام صرف ٹوورسٹ گائیڈز ہی کرسکتی ہیں۔ راہیؔ صاحب اہل سوات ہیں اور وہی ایسی گائیڈ بک لکھنے کے اہل تھے۔ امید ہے اس کے پڑھنے سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔”
اوپر درج شدہ سطور مستنصر حسین تارڑ کے ہیں جو انھوں نے استاد محترم فضل ربی راہیؔ کی کتاب "سوات سیاحوں کی جنت” کے پہلے ایڈیشن (مئی 2000ء) پر احاطۂ تحریر میں لائی تھیں۔ اس وقت واقعی "میرا سوات” سیاحوں کی جنت تھا۔ یہ سطور لکھتے وقت تارڑ صاحب کے وہم و خیال میں بھی نہیں آیا ہوگا کہ آگے چل کر اس جنتِ نظیر وادی کا کیا حشر کیا جانے والا ہے۔ سوچتا ہوں کہ آج اگر استادِ محترم مذکورہ کتاب کی تیسری اشاعت (مئی 2012ء) کے موقع پر ایک بار پھر تارڑ صاحب کو خامہ فرسائی کی دعوت دیتے، تو وہ کچھ یوں رقم طراز ہوتے: "خوشحال خان خٹک کے زمانہ میں سوات ایک ایسی وادی تھی جو لوگوں کے دلوں کو خوشی سے بھر دیتی تھی۔ مگر آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ آج اگر آپ کو کڑھنے کا شوق چرے یا آپ کو اپنی اوقات میں رہنے کی پریکٹس مقصود ہو، تو پھر آپ وادیٔ سوات کی یاترا ضرور کیجیے۔ جہاں داخل ہوتے ہی وردی والے صاحبان بندوق تانے آپ کی شناخت سے آپ کے بھرپور استقبال کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیں گے۔ جب تک آپ اس مقبوضہ وادی کی مقدس یاترا پر ہیں، تو شناختی کارڈ کو گلے کی زینت بنائے رکھیں، ورنہ آپ کو اس جرم کی پاداش میں آڑے ہاتھوں لیا جاسکتا ہے۔”

"سوات سیاحوں کی جنت” کا ٹائٹل اور بیک پیج۔ (فوٹو: لکھاری)

آمدم برسر مطلب، "سوات سیاحوں کی جنت” کا ٹائٹل انتہائی مسحور کُن ہے۔ کتاب کھولتے ہی سب سے پہلے ضلع سوات کا نقشہ دو تین لمحوں تک سوات کے حدودِ اربعہ کے مطالعے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے بعد رنگا رنگ تصاویر سیاحوں کا دل گدگدانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ فضاگٹ پارک کی ایک تصویر، مقامی طرز کی چیئرلفٹ، منگورہ شہر کی دو تصاویر، مہاتما بدھ کے مجسموں، سوات کے اسٹوپوں، کھنڈرات، آثارِ قدیمہ، کنڈولو ڈنڈ (کنڈول جھیل)، سیدگئی ڈنڈ (سیدگئی جھیل)، کنگرو ڈنڈ (کنگرو جھیل) اور ان کے علاوہ کالام، اوشو، مدین، مٹلتان، مہو ڈنڈ، گبرال، اتروڑ، مرغزار، ملم جبہ، یخ تنگے ریسٹ ہاؤس، سوات کے کوہستانی بچوں اور کالام میں ایک آبشار کی تصاویر مذکورہ کتاب کی ورق گردانی کرنے والے ہر فطرت پرست کا دل اپنی طرف کھینچنے کے لیے کافی ہیں۔
کتاب مطالعہ کرتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے راہیؔ صاحب مجھے کسی بچے کی طرح انگلی تھمائے ایک ایک جگہ کی سیر کرا رہے ہیں اور بتائے جا رہے ہیں کہ "دیکھو، یہ منگورہ کا مرکزی شہر ہے۔ یہاں سے فُلاں سڑک کالام، فلُاں ملم جبہ اور فُلاں مرغزار جاتی ہے۔ یہ دریائے سوات ہے۔ اس کا پانی امرت ہے۔ اسے اگر سو سالہ بوڑھا بھی نوشِ جاں فرمائے، تو وہ اپنی ہڈیاں چٹخار کر کسی پچیس سالہ نوجوان کی طرح مٹک مٹک کر چلنا شروع کرے۔”
مذکورہ کتاب میں سوات کے تعارف سے لے کر، یہاں کے لوگ، تاریخی پس منظر، طالبانائزیشن، رسد و رسائل کے ذرائع، ہوٹل اور ریسٹ ہاؤسز، اہم ٹیلی فون نمبرز، صنعت و حرفت، علم و ادب، گندھارا تہذیب، میوزیم، اٹلی کا آثارِ قدیمہ مشن، یہاں کے تحائف غرض ایک بھی ایسا حوالہ نہیں ہے جس سے صرفِ نظر کیا گیا ہو اور جس کی وجہ سے کتاب پڑھنے والے کو کوئی تشنگی محسوس ہوتی ہو۔
میں اس کتاب کو استادِ محترم فضل ربی راہیؔ کا کارنامہ سمجھتا ہوں۔ "سوات سیاحوں کی جنت” کا یہ تیسرا ایڈیشن ہے۔ سوات کے ہر اچھے بک اسٹال سے یہ باآسانی دستیاب ہے۔

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔