ادب کو متوازی تاریخ بھی کہا جاتا ہے اور شاید ادب کی یہ تعریف ایسے بہت سارے مکاتب فکر کو پسند آئے گی جو ادب کی فرسودہ سیاسی، سماجی، تہذیبی حتی کہ جمالیاتی معیارات؍ اعتبارات کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پنجاب اور یہاں کی زبان کی تاریخ کے بارے میں مختلف باتیں سامنے آتی ہیں۔
ڈاکٹر محمد باقر بتاتے ہیں کہ ’’مغل شہنشاہ جہانگیر پہلا شخص ہے جس نے اپنی تزک جہانگیری جلد دوم کے صفحہ 183 پر پہلی بار پنجاب کا نام لکھا۔‘‘
اس کے علاوہ عباس خاں سروانی کی تاریخ شیر شاہ جو1580-81ء میں لکھی گئی اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک راہ قلعے سے پنجاب کے شیر خان نے بنایا تھا۔
ابوالفضل نے آئین اکبری جلد اول میں پنجاب کو دو صوبوں لاہور اور ملتان میں تقسیم کیا ہے۔
شفقت تنویر مرزا اپنی تصنیف ’’پنجابی تنقید اور دوسرے مضامین‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’مولا بخش کشتہ کے بقول جب سکھوں نے پنجابی زبان کو نہ صرف اپنی مذہبی بلکہ ثقافتی زبان بھی قرار دے دیا، تو پھر اس زبان میں سکھوں نے ہی وقت کے ساتھ ساتھ اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا، سکھ حکومت نے نہ تو پنجابی زبان کو سرکاری قرار دیا (غالباً وجہ وہی انتظامی تھی) جس کے باعث ہم پچاس برس میں انگریزی کی جگہ بنگالی (1971ء تک) اور نہ اردو (اب تک) کو دفتری یا سرکاری زبان بنا سکے اور نہ ہی اس عہد میں پنجابی شعر و ادب کو کوئی خاص یا عام سرپرستی حاصل ہوئی۔‘‘
پنجاب کی حدیں پاکستان کے مشرق مغرب سے انبالہ ڈویژن سے اٹک تک، شمال جنوب سے، راولپنڈی سے بہاولپور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر 1900ء کانقشہ دیکھا جائے، تو دلی سے نوشہرہ تک اور بہاولپور سے ہزارے تک سارا پنجاب تھا۔ 1947ء کی تقسیم ہوئی، تو پاکستان کے حصے میں آنے والے پنجاب میں کمی ہو گئی۔
عبدالغفور قریشی ’’پنجابی ادب دی کہانی‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں: ’’ویسے تو پانچ جگہوں، سات دریاؤں کی اس دھرتی پر آبادی کے نشان قریباً تین لاکھ سال پرانے ملتے ہیں جن کا ثبوت سیوان سے ملے پتھر کے ہتھیاروں سے مل جاتا ہے۔ پر یہاں کی اس آبادی کے لوگوں کی وسّوں کس طرح کی تھی؟ ان کے رسم و رواج، دین مذہب کے بارے میں بہت کم گواہی ملتی ہے۔ کہیں اور سے بھی پتا نہیں چلتا، پر اس سے پہلے کی آبادی کا پانچ ہزار سال پہلے کی تہذیب کا پتا لگا ہے جسے وادئی سندھ کی تہذیب کہا گیا ہے اور اس کے نشان ہڑپا (ساہیوال) پنجاب اور موہنجوداڑو سندھ سے ملے ہیں۔ اب تک کی کوششوں سے اس تہذیب کی ایک سو آبادیاں تلاش ہوچکی ہیں۔ یہ تہذیب ترقی یافتہ لوگوں کی تہذیب سمجھی جاتی ہے۔ ان کھنڈروں سے آریاؤں سے بہت پہلے پنجاب واسیوں کی وَسوں بستی ہے کہ وہ لوگ پکی اینٹوں کے مکانوں میں رہتے تھے۔ حمام تھے۔ زمین کے نیچے بہتی پکی نالیاں تھیں۔ گلیاں پکی تھیں۔ گندم اور جو کاشت کرتے تھے۔ گوشت اور مچھلی کھاتے تھے۔ گائیں، بھینسیں، ہرن، ہاتھی اور اونٹ پالتے تھے۔ ہاتھی دانت، سونے چاندی، پتھر اور کوڈیوں کے زیور پہنتے تھے۔ کپاس اور اون کے کپڑے پہنتے تھے۔ ان کی تجارت کا دائرہ میسوپویٹمیا اور دور نزدیک کے ملکوں سے قائم تھا۔‘‘

پنجابی نثر میں ابتداً سکھوں نے لکھا، پھر مرکزی پنجاب کے مہاجر اور مقامی ادیبوں نے لکھا۔

مسلمانوں نے رسمی اور غیر رسمی ہر دو سطحوں پر پنجابی کو طاق میں ڈال رکھا تھا۔ پچاس سال پہلے پنجابی لوگ بولنے میں آج سے بھی زیادہ پنجابی استعمال کرتے تھے اور سیاسی مذہبی تبدیلیوں اور واقعات کے شعری اظہار سے زیادہ واقف ہوتے تھے (اہم واقعات کے بارے میں پمفلٹوں کی تخلیق، اشاعت اور فروخت، تعدادِ فروخت بعض اوقات لاکھوں تک ہوتی تھی) گو سرکاری، رسمی یا ثقافتی اور شعری سطح پر سکھوں کے ماسوا دونوں قوموں نے پنجابی کو نظر انداز کر رکھا تھا۔
نثر میں ابتداً سکھوں نے لکھا، پھر مرکزی پنجاب کے مہاجر اور مقامی ادیبوں نے لکھا، اس لیے نمایاں لہجہ مرکزی شہری پنجابی کا ابھرا اور دوسرے لہجے والوں کو اجنبیت کا سامنا کرنا پڑا۔
مغربی پنجاب میں پنجابی شاعری بھی پرانے ہی ڈھب سے لکھی جا رہی تھی اور اتفاقاً زیادہ تر مرکزی پنجاب میں اور موضوعات بھی زیادہ تر سیاسی، سماجی اور تاریخی ہوتے اور اشاعت بھی زیادہ تر اسی علاقے میں ہوتی تھی، اس لیے اس پر ایک چھاپ سی لگ گئی۔ 1940ء میں مسلمان پنجابی شاعروں کی اکثریت نے تحریکِ پاکستان کی حمایت میں شعر کہنے شروع کیے۔ ان میں استاد کرم امرتسری، ظہیر نیاز بیگی، محمد دین، فیروز دین فیروز، دائم اقبال دائم، مجید کریام والا اور عبدالکریم مجاہد کے نام قابل ذکر ہیں۔
جب پنجاب کی آزادی کے موقع پر تقسیم ہوئی، تو اس عمل کو مسلمانوں نے اپنے خلاف انگریزوں اور غیر مسلموں کی سب سے بڑی کارروائی قرار دیا، پھر مشرقی پنجاب کے سکھ مہاراجوں کی فوج اور مذہبی جنون نے پنجاب کو تقسیم تک محدود نہیں رہنے دیا بلکہ دونوں حصوں کو دوسرے مذاہب والوں سے زبردستی خالی کرایا اور قتل و غارت گری کی عدیم المثال حماقت بھی کی، یہ کچھ مسلمانوں کے اجتماعی احساس اور تاریخی شعور کے برعکس ہوا تھا، اس لیے شعر و ادب کی دنیا میں امرتا پریتم کی طویل نظم کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا پنجابیوں خصوصاً مسلمان پنجابیوں کے حال حقیقت کی بھرپور ترجمانی کر گیا بلکہ آئندہ کے لیے ایک راہ بھی متعین کر گیا۔ امرتا نے کہا تھا:
اج آکھاں وارث شاہ نوں کتے قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اس نظم میں غالباً دل کو ہلا دینے والا مصرع وہ تھا:
اَج بیلے لاشاں وچھیاں اج لہو دی بھری چناب
بیلے رانجھوں سے منسوب ہیں اور چناب ہیروں اور سوہنیوں سے، تو ان رانجھوں اور ہیروں کی داستان تو ایسی ہے کہ یورپ میں بھی یہ اہلِ درد کو لوٹ لیا کرتی تھی اور انشا نے کہ دیا تھا:
سنایا رات کو قصہ جو ہیر رانجھے کا
تو اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
امرتا پریتم کی شاعری کے ان ٹکڑوں کے بعد پنجابی کے ہی نہیں اردو کے کئی ابھرتے ہوئے جانے پہچانے شاعروں نے پنجابی کا رُخ کیا۔ جن میں نمایاں احمد راہیؔ ہوئے۔ پھر منیر نیازی کی نظم ’’اک بہادر دی موت‘‘ بھی کچھ ایسی ہی بپتا کی عکاسی لگی۔‘‘
تحریکِ پاکستان لکھنے والوں کے علاوہ بعد والی نسل کو بھی معاشی، سماجی اور ثقافتی اعتبار سے تجربے ہوئے۔ ان میں استاد دامن، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر، شریف کنجاہی، اکبر لہوری، عبدالمجید بھٹی، خلیل آتش، صفدر میر، حکیم ناصر، افضل پرویز، عبدالقدیر رشک، معمر تاتاری، طالب جالندھری، باقی صدیقی، رضا ہمدانی، غلام یعقوب انور، صوفی تبسم، عالم سیاہ پوش وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
ساتویں دہائی سے پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے پنجابی کی کلاسیں شروع کی گئیں۔ استادوں میں ڈاکٹر شہباز ملک، ڈاکٹر اسلم رانا، ڈاکٹر اختر جعفری، ڈاکٹر سرفراز قاضی کے نام نمایاں ہیں۔ تاریخ کے حوالے سے عبدالغفور قریشی اور ڈاکٹر فقیر کا نام آتا ہے۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید ’’پرکھاں‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’جیسا کہ آج ثابت ہو چکا ہے کہ پنجابی زیادہ پرانی زبان ہے اور پھر ظاہر ہے کہ اس میں کہانیاں بھی بسی ہوئی ہیں۔ پر لکھی ہوئی صورت میں بہت کم سامنے آتی ہیں۔ صرف سینہ بہ سینہ رہنے والی کہانیاں ہی ہم تک پہنچتی ہیں اور یہ بھی کہ شروع میں یہ قصے کہانیاں منظوم صورت میں لکھے گئے تھے جیسا کہ ہیررانجھا، سسی پنوں اور سوہنی مہینوال وغیرہ۔‘‘

ساتویں دہائی سے پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے پنجابی کی کلاسیں شروع کی گئیں۔

ایک وقت تھا جب پاکستان میں علاقائی زبان اور علاقائی کلچر کا نام لینا پاکستان دشمنی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ علاقائی زبانوں کو قومی زبان کے مقابل رکھ کر دیکھا جاتا تھا اور ان کو تہذیب میں چھوٹا مقام دیا جاتا تھا۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ زبانوں کو ایک تہذیبی عمل کا حصہ سمجھنے کی بجائے ان کو سیاسی میدان میں استعمال کیا جانے لگا۔ اس نقطۂ نظر کے حامیوں نے یہ نہ دیکھا کہ قومی کلچر کو، علاقائی کلچر سے کوئی الگ اور اعلیٰ شے کر کے دیکھا جائے، تو اس سے بڑی بے عقلی کی بات کیا ہو سکتی ہے۔ کوئی بھی کلچر خلا میں پروان نہیں چڑھتا۔ اگر کوئی ایسی کوشش کی جائے گی، تو اس کلچر کے پاؤں ہی نہیں ہوں گے اور وہ ہوا میں لٹکتا رہے گا۔ کلچر بغیر دھرتی کے ایک ایسا جھوٹ ہے جس پر لاکھ کوشش کی جائے، وہ سچ میں نہیں بدل سکتا۔
عورت ادب کا بھرپور موضوع ہے۔ یہ موضوع تمام تر سیاسی، سماجی، تہذیبی، مذہبی اور جمالیاتی حوالوں سے اہم رہا ہے۔ ادب میں (خواہ وہ کسی بھی عہد یا زبان کا ہو) عورت کو "Object” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ ادیب جنہوں نے عورت پر کیے جانے والے مظالم کو "Resistence” کا استعارہ بنایا ہے۔ عورت کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر ہی رہے ہیں۔ عورت ذات کی تحلیل نفسی کی کاوش نے شاید کہیں کہیں اس کی جمالیاتی حیثیت سے منسوب فرسودہ اعتقادات کو تو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن اس سب کے باوجود اس کے نفس کو وہ سخن عطا نہیں کر سکے جس کی ہمیشہ سے ضرورت موجود رہی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب کی عورت جفا کش، محنتی، ہمدرد، غیرت مند اور بہادر ہے۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں ساری زندگی قربانیاں دیتی رہتی ہے۔ برصغیر کے دوسرے کئی علاقوں سے زیادہ، پنجاب کی عورت سارے رشتہ داروں کے ساتھ رہ کر ایک گھر میں زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ وہ تو پہلے ہی بڑی خدمت گزار اور لاج والی تھی۔ حکم دیا گیا کہ اس کے سر پر عربوں کے قبائلی معاشرے کی رسموں اور تعصب کا بھاری پتھر رکھ دیا جائے اور اس کے پاؤں میں ملوکیت کے ہاتھوں ڈسے ہوئے اور اپنی مرضی کے اسلام کی بیڑیاں ڈال دی جائیں۔ عورت کے لیے قوانین بنائے گئے۔ جب ان کا مطالعہ کیا گیا، تو یہ نکتہ کھلا کہ ہندوستان اور پاکستان کے دوسرے صوبوں کی مورتیوں کے مقابلے میں پنجاب کی عورتیں کئی لحاظ سے مختلف ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ جاگیرداری نظام میں زندگی بسر کرنے والی کسی پنجابی عورت کو جاگیردار کی دوسری، تیسری یا چوتھی بیوی بن کے رہنا پڑ جائے، تو وہ ساری زندگی جاگیردار کی حویلی میں گزارنے پر محبور ہو جاتی ہے۔ پر اگر غلام اور آزاد پنجابی عورت کے پیدائشی مزاج کا مطالعہ کیا جائے، تو پنجاب کے گاؤں اور شہر کی عورت بھی بااعتماد ہے۔ زندگی کے مسئلوں کو پوری طرح سمجھتی ہے اور ان کو حل کرنا بھی جانتی ہے۔ خاندان میں، فیصلے عورت کے ہی چلتے ہیں بلکہ وہ تو گھر کے باہر والے 60 فیصد کام بھی خود بھگتا آتی ہے۔
پنجاب کی عورت پر مغربی فیشن تھوپنے کی کوشش بھی کی گئی۔ پر وہ اس الجھن کا نہ شکار ہوئی اور کبھی یورپ اور دوسرے علاقوں سے برآمد کیے ہوئے پہناوے کے تصور کو قبول کیا۔ اب تو چھوٹے قصبوں میں ’’تُرخی‘‘ برقعے کا رواج بھی ختم ہو رہا ہے۔ دیہات کی پنجابی عورتیں ’’لاچا‘‘ پہنتی تھیں۔ اب یہ رجحان کم ہو کے شلوار قمیص کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔
پنجاب کی عورت گھر میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔ پورے گھر کا نظام وہ چلاتی ہے۔ خاوند اگر دوسری شادی کرنا چاہے، تو اجازت نہیں دیتی۔ اگر وہ کر بھی لے، تو پھر سوکن کی زندگی حرام کر دیتی ہے۔

پنجاب کی لوک کہانیوں اور شاعری میں عورت ہی مرکزی اور غالب کردار ادا کر رہی ہے۔

پنجاب کی لوک کہانیوں اور شاعری میں عورت ہی مرکزی اور غالب کردار ادا کر رہی ہے۔ ہیر رانجھا میں مرکزی کردار ہیر کا ہے۔ مرزا صاحباں اور سوہنی مہینوال کے قصوں میں عورت ہی کرداروں اور واقعات کو آگے بڑھاتی ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کہانی کے آغاز، کلائمیکس اور انجام کی ساری ڈرامائیت ان کہانیوں کے نسوانی کرداروں کے ہاتھ میں ہے۔ مرزا صاحباں کی کہانی کو آگے چلانے کے لیے اہم واقعات کی پلاننگ صاحباں کا کردار خود ہی کرتا ہے۔ گھر سے بھاگنے کے لیے وہ مرزا کو خود بلاتی ہے۔ سوہنی مہینوال کو ملنے کے لیے خود ہی اپنی جان کو خطرے میں ڈال کے کچے گھڑے پر سوار ہو کر دریا کو پار کرتی ہے۔ ہیر، رانجھے کے عشق کو چوریاں کھلا کھلا کر خود پروان چڑھاتی ہے اور اسے خود ملنے جاتی ہے۔ سچ پوچھیں تو ان سب قصوں میں پنجاب کی عورت نے "Active” کردار ادا کیا ہے۔ پنجاب کا مرد گن پکڑ کر اس کے پیچھے پیچھے پھرتا ہے۔
پنجابی افسانہ نگار خواتین میں رشیدہ سلیم سمیں۔ شفقت سلطانہ، مسرت پراچہ، خالدہ ملک، شاہین آرا، کہکشاں ملک، ناہید اختر، عبیدہ سید، نرگس مفتی، کہکشاں کنول، نزہت زہرا گردیزی، نائلہ صدف، قدسیہ قدسی، خاور راجا، زویا ساجد، عذرا وقار، شگفتہ نازلی، ڈاکٹر دلشاد ٹوانہ اور نسرین بھٹی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔