ہم صبح سویرے اُٹھتے ہیں، پھر اپنے دفتروں، اپنے کارخانوں اور اپنی روزی کے ٹھکانوں کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ مگر ہم صبح سویرے کیوں اُٹھتے ہیں، کیا یہ اُٹھنے کا وقت ہے؟ ہاں! میں نے اپنے آپ سے درست سوال کیا۔ یہ اُٹھنے کا وقت نہیں ہے، مگر ہم پھر بھی اُٹھتے ہیں۔ یہ ہماری مجبوری بھی ہے اور مختاری بھی کہ ہم جاڑوں میں اپنے گرم بستروں اور گرمیوں میں اپنے سرد بستروں سے اُٹھیں، منھ پر چھپکا ماریں، ناشتا کریں اور اپنی احتیاج کی خاطر گھر سے نکل جائیں۔ اب سے لاکھوں برس پہلے بھی انسان کی یہ تعریف کی گئی تھی کہ انسان ایک ایسا جانور ہے جو دو پیروں پر چلتا ہو اور اس کا قامت سیدھا ہو۔ میرے اور تمھارے خیال میں یہ تعریف کوئی غلط تعریف تو نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم دو پیروں پر چلتے ہیں اور ہمارا قامت سیدھا ہے۔ مگر یونان کے ایک حکیم نے اس سیدھی سادی اور سچی تعریف کو بھی نہیں بخشا اور اس کا مذاق اُڑایا۔ وہ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن ارسطو اپنی مجلس میں بیٹھا ہوا اپنے شاگردوں سے بود نبود کے مسئلے پر گفت گو کر رہا تھا کہ اتنے میں ایک ننگ دھڑنگ آدمی جس کے لمبے اور اُلجھے ہوئے بال اس کے چہرے پر بکھرے ہوئے تھے، مجلس میں داخل ہوا۔ ارسطو کی آنکھوں نے اور اس کی آنکھوں ہی نے نہیں، پورے وجود آنے والے اس عجیب و غریب آدمی کی پذیرائی کی۔ آنے والا تھا بھی ایسا جس کی ارسطو اپنے پورے وجود کے ساتھ پذیرائی کرتا۔ میرے ادیب دوست اور بھائی معراج رسول، اور میرے قبیلے کے صاحبِ حال شاعر میاں جمال احسانی، وہ تمھارا بہت محبوب اور قلندر تھا۔ تمھارے دل اور دانش کا قلندر۔ اور ہم تینوں کے حرفوں کو پڑھنے والے دوستوں، دانشوروں اور دانش یاروں کا بہت محبوب اور محترم قلندر۔ اور میں اور تم جانتے ہیں کہ اس کا نام دیو جانس کلبی تھا۔ وہ ارسطو کی مجلس میں وارد ہوا اور حال یہ تھا کہ اس کی بغل میں ایک مرغا تھا۔ وہ مجلس میں وارد ہونے کے بعد چند لمحوں کے لیے ٹھہرا اور اس نے دائیں ہاتھ سے مرغے کی دونوں ٹانگیں پکڑیں اور بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور اس کے برابر والی اُنگلی سے اس کی چونچ کو پیچھے کی طرف کھینچا اور اسے زمیں پر دو پایہ جاندار کی طرح کھڑا کر دیا اور کہنے لگا…… ’’یہ ہے ارسطو کا انسان۔‘‘ کوئی شبہ نہیں کہ ارسطو نے انسان کی جو تعریف کی ہے۔ اس تعریف کی رُو سے دیوجانس کلبی کا مرغا۔ ان چند لمحوں کے دوران میں انسان کی تعریف پر پورا اُترتا تھا۔ اور اس بات میں انسانوں کو جھینپنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت اور احتیاج کے معاملے میں مرغا اور انسان دونوں ایک ہیں۔ ہاں! ہم سب انسان، جانور، پودے، پھلواریاں اور جھاڑ جھنکاڑ ہم سب کے سب ضرورت اور احتیاج کے مارے ہوئے ہیں۔ میں، تم، میرے دوست اور دشمن، جانور، پودے، ان کی ٹہنیاں، پتے، پھول اور ان کے کانٹے سب کے سب ضرورت اور احتیاج کے مارے ہوئے ہیں۔ میں اور تم اسی وقت گنگناتے ہیں جب پکا ہوا یا اُبلا ہوا اناج ہمارے معدوں میں پہنچ گیا ہو۔ جانور اسی وقت اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں، جب ان کا پوٹا تر ہو۔ اور پیڑ پودے، پھلواریاں، جھاڑ جھنکار اور گھاس پھوس اسی وقت لہرائیں گے، جب ان کی جڑوں تک پانی پہنچ گیا ہو۔ زمین کا سارا کھیل، زندگی کا کھیل ہے۔ اور زندگی کا سارا کھیل، دانے اور پانی کا کھیل ہے۔ میں، تم اور ہم سب اور ہمارے سب سے چوکھے رنگ اور ہمیں سب سے زیادہ پسند آنے والی خوش بوئیں، معدوں اور جڑوں سے زندہ ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو مجھے اپنا ایسا کوئی دانش مند دکھا دو، کئی ولیؔ، دکنیؔ، میرؔ، غالبؔ، شاہ لطیف، وراث شاہ، میر انیس، بلھے شاہ اور خوشحال خاں خٹک…… جس نے ہوائیں پھانکی ہوں اور ہوائیں پی ہوں اور انسانوں کی بہترین دانش کو گنگنایا ہو۔ میں جانوروں، پیڑوں، پودوں، پھولوں اور سمندروں میں زندگی کا لہراؤ پانے والی دوسری چیزوں کے نام گناتا ہوں اور نہیں گنا پاتا۔ مگر یہ ضرور جاننا چاہتا ہوں کہ ہر وہ چیز جس کے بارے میں، مَیں اور تم یہ کہتے ہیں کہ وہ ہے…… کیا ایسا ہے کہ وہ بس ہوا اور پانی کے نام پر زندہ ہے؟ سارا مسئلہ پیٹ کا ہے، اگر پیٹ خالی ہے تو نہ فن کے کوئی معنی ہیں اور نہ فکر کے۔ جس چیز نے انسانوں کی زندگی کو اس کے لیے ایک سزا بنا دیا ہے، وہ ضرورت ہے، جو پوری نہیں ہوتی۔ ہم سب کو ایک ایسا ماحول بنانا چاہیے جس میں زندگی ایک سزا محسوس نہ ہو۔ (فرنود ’’جون ایلیا‘‘ صفحہ 465)

………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔