’’ساون وَل آیا‘‘ عائلی مسائل کے متعلق بشریٰ قریشی کی ایک معاشرتی کہانی ہے جہاں بعض لڑکیاں جب دلہن بن کر سسرال چلی جاتی ہیں، تو وہ زندگی کے تلخ حقائق اور تجربات سے ناواقف ہونے کے باعث بہت عرصہ تک خیالی اور غیر حقیقی تصورات میں غلطاں رہتی ہیں اورخود کو وہاں حالات کے مطابق ڈھالنے کی بجائے اپنی پرانی روشن پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں، جس سے رشتوں اور تعلقات میں تناؤ پیدا ہوتا ہے۔اس افسانے میں سیما بھی ایک ایسی ہی لڑکی ہے جو جمال کے ساتھ شادی کرنے کے بعد زندگی کے حقائق و ادراک کے بغیر غیر حقیقی تصورات میں خود کو مگن رکھتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آخرِکار وہ خوشگوار زندگی کا راز پانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
اس افسانے کا مرکزی خیال یہی ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیا جائے اور تصورات کی دنیا میں مگن رہنے کی بجائے حقیقت کا سامنا کیا جائے۔ اس سے ازدواجی زندگی بہتر اور پُرسکون ہوسکتی ہے۔
اسی طرح ’’من دا گھونگھٹ‘‘ افسانے میں کنول نامی لڑکی جسے بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے کی بجائے نانی کے گھر بھیجا گیا جہاں اس کی نانی اسے کھیلنے اور بچپن کی شرارتیں کرنے سے منع کیا کرتی تھی۔ نانی کی اس سخت گیری اور سرزش نے نہ صرف اس کی معصوم خواہشوں کا گلہ گھونٹ کر رکھ دیا بلکہ اسے ایک چپ لگ گئی۔ نانی کی وفات کے بعد وہ واپس اپنے والدین کے پاس رہنے لگی۔ یہاں بھی کسی نے اس کی خاموشی کے سبب کو جاننے کی کوشش نہ کی جس سے وہ مستقل طور پر خاموش اور ہر ایک سے الگ تھلگ رہنے لگی۔ جب کنول کی شادی ہوئی، تو وہاں بھی اپنے بچپن کے اس المیے کے باعث ان کی ذات کھل کر سامنے نہ آ سکی اور اس کا شوہر بھی دوسرے لوگوں کی طرح سنانے کی عادت کا شکار تھا اور اس نے کنول کو بھی کھل کر سمجھنے اور بولنے کا موقع نہ دیا۔ جس سے کنول کے سارے خواب ادھورے پن کا شکار ہو کر رہ گئے اور وہ صبر و شکر کرکے خاموش رہنے لگی لیکن جلد ہی اسے صبر کا پھل خوبصورت بیٹے کی صورت میں مل گیا اور اس کی زندگی بدل گئی۔ وہ ہر وقت بیٹے سے باتیں کر کے خوش ہوتی۔ اس کی تنہائی کم ہوتی گئی لیکن وہ اپنے شوہر نیاز سے دور ہوتی گئی۔ بیوی کی اس بے اعتنائی کے باعث نیاز نے کسی اور لڑکی میں دلچسپی لینا شروع کر دی، تو کنول نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے جلد ہی اپنے پرانے رویے میں تبدیلی پیدا کی اور اپنی روایتی خاموشی کو توڑتے ہوئے خود کو نیاز کے قریب لانے کی کوشش کی جس سے ان کی زندگیوں میں پیار اور مسرت کی ایک نئی لہر نے جنم لیا۔
بشری کے افسانہ ’’نواں جنم‘‘ میں سویرا جسے بچپن ہی سے کوئی چیزمانگ کر حاصل کرنے سے نفرت تھی، بچپن کی عادت لے کر وہ یونیورسٹی میں داخل ہوئی، تو اس کی قربت نبیل سے ہونے لگی۔ نبیل نے کسی دن اس سے محبت کی استدعا کی، تو اسے نبیل سے نفرت ہونے لگی۔ کیوں کہ اس کے نزدیک نبیل کی حیثیت ایک منگتا کی سی تھی۔ نبیل کو ٹھکرانے کے بعد سعد اس کی زندگی میں داخل ہوا۔ وہ دونوں وقت کے ساتھ ساتھ قریب ہوتے گئے، لیکن سعد نے کبھی اس سے محبت کا اظہار نہ کیا۔ سویرا کو سعد کی ادا بہت پسند آئی، لیکن بالآخر ایک دن سویرا نے خود ہی سعد سے اپنی چاہت کا اقرار کیا، تو سعد نے مثبت جواب دیا۔جس سے سویرا کو یک گو نہ مسرت حاصل ہوئی، لیکن جلد ہی یہ خیال آیا کہ اس نے سعد سے محبت طلب کر کے خود کو ایک سوالی کے طور پر پیش کیا۔ اس احساس سے اسے خود سے نہ صرف نفرت ہونے لگی بلکہ اس نے سعد سے ملنا جلنا بھی ترک کر دیا۔ کیوں کہ اس کے نزدیک کسی چیز کو مانگ کر حاصل کرنا اس کی انا اور خود داری کے خلاف تھا۔ خود کو سزا دینے اور اپنی انا کو برقرار رکھنے کی خاطر سویرا نے اپنے گاؤں کے ایک عام سے لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ شادی کے بعد سویرانہیں چاہتی تھی کہ وہ اپنے شوہر کو سعد والا مقام عطا کرے۔ اسی باعث وہ اپنے شوہر سے کوئی خاص دلچسپی پیدا نہ کر سکی۔ سویرا کی اس بے اعتنائی کی وجہ سے اس کے شوہر نے اسے نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ تب جا کر اسے احساس ہوا کہ زندگی میں کچھ لو اور کچھ دو کا اصول بہر طور ناگزیر ہوتا ہے، تو اس نے شام کو گھر آتے وقت اپنے شوہر کا استقبال خوبصورت عورت بن کر کیا جس سے ان کی زندگی ایک نئی شاہراہ پر گامزن ہو گئی۔
اس افسانے میں اس چیز کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ازدواجی زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ذات اور انا کے خول سے باہر نکل کر زندگی کی حقیقتوں اور سچائیوں کو سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت بہرحال ناگزیر ہوتی ہے۔
’’آلھناں‘‘ ثنا نے مراد کے ساتھ پسند کی شادی کی تھی لیکن وہ اپنی نت نئی فرمائشوں کی تکمیل نہ ہونے پر اپنے شوہر مراد سے ناراض ہو کر میکے جانے کی بجائے اپنی بچپن کی سہیلی نازلی کے گھر آ کر رہنے لگی تھی۔ مراد نے اس دوران میں اسے بہت فون کیے لیکن وہ فون سننے پر آمادہ نہ تھی۔ ایک دن وہ سہیلی کے گھر میں اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اس نے دیکھا کہ ایک کالا ناگ چھت میں رہتے ہوئے چڑیوں کے آشیانے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جہاں اس کے دو بچے موجود تھے۔ ثنا چڑیوں کے آشیانے کو سانپ سے تونہ بچا سکی لیکن اس کے دل میں فوراً یہ احساس جا گزیں ہوا کہ اس کے بچے کس حال میں ہوں گے؟ مراد اکیلا کس طرح سنبھالتا ہو گا؟ یہی سوچ کر وہ تیزی سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی، تاکہ اپنے بچوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاشرے کا کوئی کالا ناگ انہیں ہڑپ کر ڈالے۔
بشری قریشی کاافسانہ ’’سچ دا پندھ‘‘ ازدواجی مسائل کے بارے میں ہے۔ جس میں شہر کی پلی بڑھی لڑکی شبانہ جو دیہات کی ہر فطرتِ زندگی کی شیدائی تھی، اپنی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر انہوں نے دیہات میں ہی سجاول نامی ایک زمیندار سے پسند کی شادی کی۔ شروع شروع میں ان کی زندگی خوشیوں سے اورمسرتوں سے لبریز رہی لیکن سجاول خان کی روایتی جاگیرداری اور طرزِ عمل نے بالآخر اس پر اپنا رنگ چڑھانا شروع کیا، جس سے شبانہ کی زندگی اس کی حویلی تک محدود ہوتی گئی۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ اپنے خاندان کے حکم پر سجاول نے دوسری شادی اپنے خاندان میں کی جس سے شبانہ کی زندگی روز بروز اجیرن ہوتی گئی اور وہ دیہات سے اٹھ کر شہر میں رہنے لگی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک خوبصورت بیٹا عطا کیا، جس سے اس کی تنہائی میں کچھ کمی آ گئی اوروہ سب کچھ بھول بھال کر اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں مگن ہو گئی۔ لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ سجاول خان کو زمینوں کے تنازعے پر قتل کیا گیا، تو نہ صرف اس کی زندگی مکمل طور پر اندھیر ہوگئی بلکہ اس کے بیٹے کو سجاول خان کی جائیداد سے بھی محروم کیا گیا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور عدالت کے ذریعے اپنا حق حاصل کر لیا۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔