میرے آج کے عنوان سے کوئی سیاسی تاثر ہر گز نہ لیا جائے۔ نواز شریف کو لوگ گنجا کہتے ہیں، تو کہتے رہیں۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ میرا جی نئے سال کے منعقدہ مشاعرے میں ’’ٹنڈ‘‘ کرا کے پیچھے "Happy New Year” لکھوا کر لوگوں کی طرف پشت کرکے یہ نظم گا گئے کہ
نگری نگری پھرا مسافر، گھر کا رستہ بھول گیا
ہمیں اس سے بھی کوئی سروکار نہیں۔ کوجیک نامی انگریز سر تو کیا مونچھیں اور بھنویں تک منڈواتا تھا، ہمیں اس سے بھی کوئی سروکار نہیں۔ یہ گنجا پن بھی عجیب شے ہے۔ بعض لوگوں پہ اتنا جچتا ہے کہ اُن کی شخصیت اور بھی جاذب نظر ہوجاتی ہے۔ مالک نامی صحافی ہوں یا اپنے ہر دلعزیز واجد علی خان، ان کے گنجے سروں نے ان کی شخصیت کو اور بھی پُرکشش اور جاذبِ نظر بنادیا ہے۔ ہمارے آج کے ممدوح اتنے گنجے بھی نہیں لیکن پھر بھی اپنے آپ کو گنجا کہنے یا کہوانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اُن کا ایک مضمون ہے ’’جس دیس میں گنجا رہتا ہے۔‘‘ بہ ظاہر تو عجیب سا لگتا ہے لیکن شاید انہوں نے کسی نظم کے مشہور مصرعے ’’جس دیس میں گنگا بہتی ہے‘‘ سے متاثر ہوکر گنگا کی جگہ ’’گنجا‘‘ لگا کر مزاح کی پھلجھڑی بکھیرنے کے ساتھ ساتھ صوتی آہنگ بھی بر قرار رکھا ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے چٹکلوں سے ہر کوئی کہاں بحرہ ور ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے بھی کچھ خاص ہی کھوپڑیاں ہیں۔ لگے ہاتھوں مجھے یہاں قلندر مومند یاد آرہے ہیں۔ کس نے ان سے پوچھا ’’آپ کی تحریریں اتنی ثقیل اور گنجلک ہیں کہ پورے پختونخوا میں دوچار لوگ ہی اسے شاید سمجھ پاتے ہوں۔‘‘ قلندر نے کہا: ’’ہاں! میں انہی دو چار لوگوں کے لیے لکھتا ہوں۔‘‘ میرے ممدوح کے پڑھنے والے دوچار نہیں ہزاروں ہیں کہ ان کی ترکیبات، صوتیات اور لفظیات کا ہر کوئی دیوانہ ہے۔ اور میں تو شاید عاشق ہوں۔

فضل مولا زاہد کی فائل فوٹو

مطالعے میں میری کچھ عجیب سی عادت ہے۔ لوگ ایک دفعہ کتاب پڑھ کر اسے ’’کھڈے لائین‘‘ لگا دیتے ہیں، لیکن میں عام کتاب کو پڑھ کر لائبریری میں رکھ دیتا ہوں جبکہ خاص کتاب کو پھر سے اپنے سرہانے پڑی رائٹنگ ٹیبل پہ رکھ دیتا ہوں۔ ’’خدا گواہ‘‘ بھی میرے سرہانے پڑھی جانے والی کتابوں میں پڑی ہے۔ جس میں ’’جس دیس میں گنجا رہتا ہے‘‘ نامی مضمون موجود ہے۔ فضل مولا زاہدؔ کی شستہ، شگفتہ اور برجستہ مزاح نگاری اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے مذکورہ مضمون میں جس انوکھے اور اچھوتے انداز میں اپنے گاؤں کا نقشہ کھینچا ہے، یہ اُنہی کا کمال ہے اور اُنہی پہ بس ہے۔ سہلِ ممتنع کی مثال کوئی ایسی تحریر لکھ کے دکھائے، تو لگ پتا جائے۔ آیئے اُن کی نرالی تحریر سے لطف اُٹھاتے ہیں۔ (بعض جملوں کے دردبست میں چھیڑ چھاڑ پہ پیشگی معذرت)
’’آج‘‘ ’’دلِ تار تار‘‘ کی خواہش ہے کہ اُس پنڈ کا ذکر کیا جائے جس کے ہم ’’باسی‘‘ ہیں۔ جہاں ہم ’’کھاتوں پیتوں‘‘ میں پلے بڑھے۔ لڑکپن میں ’’پانی پت‘‘ کی لڑائیاں لڑیں، ’’بلوغی بیماریوں‘‘ نے برانگیختہ کیا۔ حسنِ ’’زن‘‘ کے واسطے دل کی دھڑکنیں دھڑکیں۔ دودھ کی نہریں نکالنے کے عہدو پیماں ہوئے۔ قلم سچ ہی لکھوائے، تو علم کی بھوک پہلے تھی نہ پیاس اب ہے۔ پھر بھی واجبی میٹرک کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے ’’بیرونی نقلِ مکانی‘‘ پہ مجبور کیا گیا۔ یوں ہمیں گاؤں کے سحر کے سرور، شفقی شاموں کی شگفتگی، پینگوں کی یادیں، کس ’’زیبا‘‘ کا کس چشمے سے کس وقت گھڑا بھرنا ہے جیسا ہارڈ ڈیسک میں محفوظ شیڈول ڈسٹرب ہوگیا‘‘۔
آگے چل کے لکھتے ہیں:ـ ’’آپ سوات کے شہر مینگورہ میں ہیں، تو یہ گاؤں شہر کے پہلو میں لپٹا سمجھیں، اور اگر گاؤں کی کسی ڈھیری پہ چڑھ کر منھ ’’مغرب زدہ‘‘ کریں، تو یہ شہر میرے گاؤں کے پہلو میں لپٹا سمجھیں۔ آپ پیدل جائیں یا گاڑی میں وقت ایک گھنٹا ہی لگے گا۔ سات کلومیٹر پہ مت جائیں راستے پر جائیں۔ سوئی گیس کے پائپ ’’دفنانے‘‘ کے لیے سڑک کو قربان کردیا گیا ہے۔ حالاں کہ حقِ ہمسائیگی کی خاطر یہاں سے اناج، دودھ، سبزیاں، ساگ، انڈے، مرغیاں، جڑی بوٹیاں، شہد، جنگلی مشروم لکڑیاں اور طرح طرح کے پھل باقاعدگی سے مینگورہ بی بی کو فراہم کیے جاتے رہے۔ لیکن شہر نے اسے بغل بچہ ہی سمجھا۔ گاؤں کی بوڑھی ڈسپنسری جوانی کی یادیں دل میں لیے، ٹیڑھی کمر کے ساتھ اب بھی کچھ لمحوں کے لیے بیماروں کو دیدار کراتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کا اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ بجلی کب آتی ہے اور کب جاتی ہے؟ وہ سرکار کے کسی کار پہ یقین نہیں رکھتے۔ یہاں ’’جودے اُس کا بھی بھلا جو نہ دے اُس کا بھی بھلا‘‘ قسم کی مخلوق رہتی ہے۔ انسانوں کے ساتھ جانوروں کا بھی یہاں بسیرا ہے۔ پہاڑوں میں تو لوگ ان کے ساتھ ایک ہی جگہ سونا پسند کرتے ہیں۔ پانڑ کی چیک پوسٹ سے گزر کر جو موڑ آتا ہے، وہاں کچھ دیر کے لیے رُک جائیں، تازہ ہوا کی چند لمبی سانسیں لیں اور سامنے پہاڑ کی طرف رُخ کرکے الحمد اللہ پڑھیں، یہیں سے گاؤں ’’کوکاریٔ‘‘ کی وادی اپنا گھونگھٹ کھولتی دکھائی دے گی۔ جوہر آنے والے کو خوش آمدید کہہ کر بانہیں وا کرتی نظر آئے گی۔ اسی گاؤں میں ایک ’’گنجا‘‘ رہتا ہے۔
یہ تھے ہمارے خان جی، جن پہ مولا کا بڑا فضل ہے کہ زاہد بنے بیٹھے ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں۔ وہ زاہدِ خشک بھی نہیں۔ اپنے بارے میں غالب ؔبابا کا یہ شعر بھی بٹھا ڈالتے ہیں کہ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
چوں کہ کتاب کے بقیہ مضامین میرا آج کا موضوع نہیں، اس لیے یہیں پہ بس کرتا ہوں۔ بس اتنا ہے کہ خان جی بڑے نفیس، حلیم اور نستعلیق شخصیت کے مالک ہیں۔ مزاج میں جتنا دھیما پن ہے، تحریر میں اتنی ہی شوخی، شگفتگی اور برجستگی موجود ہے۔ میں تو انہیں سوات کا مشتاق احمد یوسفی کہتا ہوں۔ اگر یقین نہ آئے تو اُن کی کتاب ’’خدا گواہ‘‘ پڑھ لیں۔ مزہ نہ آئے، تو پیسے مجھ سے واپس لے لیں۔

………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔